اے پیاری سہیلی!
السلام علیکم!
امید کرتی ہوں کہ آپ خیریت سے ہوں گی اور آپ کے گھر میں عافتیت اور خیر ہو گی۔
گرمی کا زور تو بہت بڑھ گیا ہے بھئی۔ سورج گویا آگ برسا رہا ہے۔ اوپر سے جو پاکستان کے کچھ علاقوں میں اور خصوصاََ اسلام آباد میں ژالہ باری اور طوفان آیا وہ موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ کسی اور جانب بھی اشارہ ہے۔ پھر پچھلے ایک دو ہفتے میں تین زلزلے بھی آچکے ہیں۔۔۔ اللہ پاک سب کو اپنی امان میں رکھے۔ مگر یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ قدرت کس جانب ہماری توجہ مبذول کروانا چاہ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے یہ ایک یاد دہانی جیسا ہو کہ اگر آپ نے ابھی تک معصوم بچوں اور بےگناہ مسلمانوں کے حق میں کوئی آواز نہیں اٹھائی تو ابھی بھی وقت ہے، خدا سے دعا کیجے اور حتی المقدور جو ہوسکتا ہے کیجے۔ ذیل میں میری ایک نظم کا لنک ہے جو کہ میں نے انتہائی بےبسی کے عالم میں لکھی تھی۔۔۔ مگر موضوع یہی تھا!
جانتے ہیں جب حضرت ابراہیمؑ کو آگِ نمرود میں پھینکا گیا تھا تو ایک ننھا سا پرندہ تھا جو اڑ کر خاصی دور جاتا اور اپنی چونچ میں پانی لاتا اور آگ پر پھینکتا۔۔۔ وہ اس سب میں مشغول تھا جب ایک چھپکلی/پرندے نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہارے اس پانی سے آگ بجھ جائے گی؟ تو اس نے جواب دیا کہ آگ تو خدا نے بجھانی ہے۔۔۔ میں تو بس وہ کرنا ہے جو میرے بس میں ہے۔۔۔ سو آپ بھی بس وہ کیجے جو آپ کی استطاعت میں ہے اور پھر اللہ سے دعا کرتے چلے جائیے۔۔۔ یقین جانیے امتحان کی یہ گھڑی ہمارے لئیے ہے۔۔۔ ہم ہیں جن کو جانچا جا رہا ہے، پرکھا جا رہا ہے۔۔۔ سو ابھی بھی موقع ہے۔۔۔ وقت کے اس موڑ پر آپ لکیر کے اس جانب تھے یا اُس جانب، اس چیز کا فیصلہ ابھی بھی آپ کے ہاتھ میں ہے۔
اچھا جی یہ تو ایک اہم بات تھی جو میں آپ سے کرنا چاہ رہی تھی۔ اب اس سے آگے بڑھتی ہوں، کچھ دن پہلے سیما جی سے بات ہوئی۔ ہماری پیاری سی سیما جی مکتوب کی قاری ہیں۔ وہ مکتوب کو بلاناغہ نا صرف پڑھتی ہیں بلکہ انتہائی خوبصورت انداز میں پُر سوچ رائے کا اظہار بھی کرتی ہیں جو کہ میرے لئیے ایک اعزاز کی بات ہے۔ تو بات ہو رہی تھی کہ ایک عمر گزر جانے کے بعد یہ ذاتی صفات، جن سے متعلق مکتوب کے پچھلے شماروں میں ذکر ہو چکا ہے، اور ہنر سیکھنا اور زندگی میں ان پر عمل پیرا ہونا خاصا مشکل کام ہے۔۔۔۔ تقریباََ ناممکن۔۔۔ اور میں ان کی بات سے اتفاق کرتی ہوں۔۔۔ اگر کسی نے زندگی کا ایک بڑا حصہ اپنے لوگوں کو خوش رکھنے کے لئیے خود کو قربان کرنے میں صرف کیا ہو تو یہ لازم ہے کہ اس کو دقت پیش آئے گی۔ ہمیشہ ہاں کہہ کر قدر پا لینے والا نہ کہہ کر مقابل کی آنکھوں میں ناگواری سہہ نہیں پائے گا۔۔۔ ماحول سے ملنے والا بیک لیش سہنا اچھا خاصا مشکل کام ہے۔۔۔ اور میں یہ سب بہت اچھے سے سمجھتی ہوں۔ پھر انسان کا مزاج بھی اسی سب کے مطابق تشکیل پا چکا ہوتا ہے سو وہ خواتین جو کہ عمر کا بیشتر حصہ گزار چکی ہیں اُن کو ایسے معاملات میں دشواری کا سامنا زیادہ کرنا پڑ سکتا ہے۔ مگر پھر مجھے کچھ اور دوستوں سے بات کرنے پر اندازہ ہوا کہ اس دشواری کا تعلق عمر کے علاوہ بھی بہت سی چیزوں سے ہے۔
ایک ایسے معاشرے میں خود کو ترجیح دینا جہاں عورت کا اصل مقصد صرف serve کرنا ہو انسان کو معاشرتی اور روائیتی اعتبار سے تنہا کر دیتا ہے۔ بھئی حال تو وہی ہو گیا نا کہ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔
تو پھر کریں کیا؟
میرا خیال ہے کہ اس چیز کا فیصلہ آپ کو کسی دن تنہا بیٹھ کر خود کرنا ہوگا۔ کیونکہ یہ آپ ہی طے کر سکتی ہیں کہ آپ کی زندگی کا اصل مقصد کیا ہے؟ آپ اپنے impact کا دائرہ کتنا شدید اور دیرپا چاہتی ہیں۔ اگر تو بات صرف اِس زندگی اور اِس جسم کی ہے تو پھر آج میں جئیں اور دوسروں کی اور خود کی کمفرٹ زون کو بالکل بھی نہ چھیڑیں۔۔۔۔ اگر کوئی آپ کے سب سے آخر میں کھانا کھانے سے خوش ہوتا ہے تو کیا ہوا۔۔۔ دل کو سمجھا لیں کہ اچھا ہے سب ذمہ داریوں سے فارغ ہو کر اچھے سے کھانا انجوائے کروں گی۔ تو اس میں بھی کوئی مضائقہ تو نہیں ہے۔ پرسکون ماحول بنائے رکھنے کے لئیے چھوٹی چھوٹی قربانیاں تو دینی ہی پڑتی ہیں۔ لیکن اگر آپ کو اس میں مسئلہ نظر آتا ہے، آپ کو لگتا ہے کہ نہیں میں بھی انسان ہوں اور مجھے بھی سب کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا چاہیے، ذمہ داریوں کا بنڈل تو ہر وقت ہی لدا رہتا ہے تو آپ کو اُس سوچ کے مخالف کھڑا ہونا ہوگا جو عورت کے آخر میں کھانا کھانے کو درست سمجھتی ہے (یہ میں نے ایک بہت سی سادہ سی مثال اٹھائی ہے۔۔۔۔ یقیناََ اس کے علاوہ کافی تلخ تجربات کا سامنا بھی رہتا ہے خواتین کو)۔ اور اس مخالفت کے لئیے آپ کو نڈر ہونا پڑے گا، باحوصلہ اور باہمت ہونا پڑے گا، جذباتی ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت سی تلخ باتوں کو نظر انداز کرنا پڑے گا۔۔۔۔۔ اور یہ سب آپ ایک ایسے مقصد کے لئیے کریں گی جو دیر پا ہوگا، جو آںے والی نسلوں کے ذہنوں نئی سوچ اور روایات کو جنم دے گا۔
سو بات وہاں آتی ہے کہ آپ کو اپنی مشکل خود چُننی ہے۔۔۔۔ مشکل آنا تو لازم ہے، کہ بنی نوعِ انسان جتنا سہولت کو چاہتا ہے، زندگی اتنا ہی اُس کو کٹھنایوں میں دھکیلتی چلی جاتی ہے، اور سہولت وہ منزل ہے جس سے پہلے مشکلات کا ایک بہت بڑا سمندر ہے جو آپ کو عبور کرنا ہے۔۔۔۔ یہ سہولت کیا ہوگی؟ یہ کس کے لئیے ہوگی؟ آپ کی قربانی کس کے لئیے ہوگی؟ یہ سب آپ طے کریں گی۔
اب ایک اہم بات یہاں یہ بھی ہے کہ جب آپ اپنی ذات کے کسی پہلو پر کام کرتے ہیں تو وہ ایک slow process ہوتا ہے۔ تو اس چیز سے گھبرانے کی ضرورت نہیں کہ ایک دم سے آپ کو رد کر دیا جائے گا۔ عموماََ ایسا ہوتا نہیں ہے۔ ہم آہستہ آہستہ اپنے مزاج میں تبدیلیاں لاتے ہیں تو اپنے ارد گرد موجود لوگوں کو بھی اُس تبدیلی کو قبول کرنے کا موقع اور وقت دینا چاہئیے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ ہم اگر کسی معاملے میں بدلاؤ چاہ بھی رہے ہیں تو وہ ایک دم سے ناگواری کا احساس نہ پیدا کرے۔ عزت و احترام ہر حال میں ملحوظِ خاطر رکھیں۔ آپ کی ذات اگر بہتری کی جانب گامزن ہے اور آپ مثبت اندازِ فکر اپنا رہی ہیں تو آپ اپنے دشمن کو بھی اپنا گرویدہ بنانے کی طاقت رکھتی ہیں۔ اور ویسے بھی جذباتی ذہانت آپ کو یہی سکھاتی ہے کہ لوگوں کے رویے اُن کے ماحول اور سالوں کی معاشرتی کنڈیشنگ کا ایک لاشعوری سا نتیجہ ہیں۔ سو آپ بھی تحمل کا مظاہرہ کرتی رہیں اور اپنی راہ پر چلتی چلی جاتی ہیں۔
اب یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ آگاہی پہلا قدم ہے۔ اگر آپ بہت ہی بےبس ہیں یا ایسے حالات میں ہیں جہاں باؤنڈریز سیٹ کرنے سے یا اپنی ذات کے لئیے آواز اٹھانے سے آپ کو کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق ہے تو آپ کم ازکم خود ان موضوعات سے متعلق آگاہ رکھیے۔۔۔ تاکہ آپ اپنے بچوں اور اپنی آنے والی نسلوں کو ان سے نہ صرف متعارف کروا سکیں بلکہ اُن کو مدد دے سکیں کہ وہ اپنا حق حاصل کرسکیں۔
جب ہماری بات ہو رہی تھی تو سیما جی نے یہ بھی کہا کہ ہم اگر خود نہ بھی ان شخصی خصوصیات کو اپنی ذات کا حصہ بنا پائیں، تب بھی، ہمیں اپنے بچوں کی گھُٹی میں یہ ڈالنی ہوں گی۔ اُن کی تربیت اُن پیمانوں پر ہو کہ وہ باکمال شخصیات بن سکیں۔ یہاں میں ایک بات کہنا چاہوں گی کہ والدین ہمیشہ اپنی اولاد کے لئیے بہترین چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں (اپنی سمجھ بوجھ اور اپنے دور کے مطابق) کے جو اُن کو نہ مل سکا وہ اُن کی اولاد کو ضرور ملے اور اُن کی اولاد اس تکلیف سے بچ جائے جو انہوں نے سہی۔ اب یہاں ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اولاد کے لئیے بھی ماں باپ کو مشکل میں دیکھنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ ہم اولاد سے یہ توقع رکھیں کہ وہ باؤنڈریز سیٹ کریں، نڈر ہوں، انکار کرنا سیکھیں مگر خود جب ہم اس سب کو عملی زندگی میں نہیں اپنائیں گے تو یقین مانیے ہم یہ مثال سیٹ کر رہے ہوں گے کہ نظر انداز بھی کر دو تو کوئی بات نہیں۔ جو کہ زیادہ toxic ہے۔۔۔ کیونکہ وہ اس طرح حقیقت کو جانتے بوجھتے ہوئے ignore کر کے suffer کر رہے ہوں گے۔
سو بات کو سمیٹنے کی کوشش کروں تو مدعا یہی ہے کہ اس زندگی میں مشکلات کا آنا تو لازم ہے۔۔۔۔ کمفرٹ زون سے باہر نکلنا پڑے گا۔۔۔ اپنے لئیے۔۔۔ اپنی آںے والی نسلوں کے لئیے۔۔۔ اُس نئی سوچ کے لئیے جو صرف آپ سے آغاز پا سکتی ہے۔
ایک سوال جس کا جواب میں اپنی قاری سے چاہوں گی: آخر وہ کون سی بات ہے جو آپ کو آپکی اپنی جانب پہلا قدم بڑھانے سے روکتی ہے؟ آپکو آپ کے اپنے لئیے آواز اٹھانے سے، اور اپنی ذات پر کام کرنے سے منع کرتی ہے؟ کیا وہ گھریلو ماحول ہے جہاں طنز و مزاح بعض اوقات دل کو بہت دُکھا دیتا ہے؟ یا وہ معاشرہ ہے؟ یا ذات کے نہاں خانوں میں چھپا ہوا کوئی خوف؟ یا کچھ اور؟ اپنا جواب کامنٹس میں یا جوابی خط میں لکھ بھیجیں۔
اگر آپ اپنے کسی ذاتی مسئلے پر بات کرنا چاہتی ہیں، پریشانیوں میں الجھے دماغ کی کچھ گتھیاں سلجھانا چاہتی ہیں یا کسی اور موضوع پر بات کرنا چاہتی ہیں تو مجھے جوابی خط لکھ بھیجیے۔
آپ کے خط کا انتظار رہے گا!
مکتوب کو پڑھنے اور پسند کرنے کا بے حد شکریہ۔ مکتوب کا یہ سفر آپ کی پذیرائی اور حوصلہ افزائی کے بنا ممکن نہ تھا۔
اپنی ذات کیلیئے آواز اٹھانے میں سب سے پہلے اپنے آپ سے جنگ لڑنی ہوتی ہے بالخصوص اگر آپ ایسے ماحول میں چھوٹے سے بڑے ہوئے ہیں جہاں ماں اور باپ،دونوں جنریشنل ٹراماز سے زخمی تھے اور وہی آپ کو منتقل ہوا۔مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ انسان جو سالوں کے ابیوز کے بعد خود کو دوبارہ سے نیا تعمیر کرنا شروع کرتا ہے،وہ اسی ٹاکسک ماحول میں رہ کے کیونکر کر سکتا ہے۔کیا بیک وقت خود سے اور ماحول سے جنگ اسے ذہنی طور پر ناکارہ نہیں کردے گی۔ایسی صورت میں،کیا حل بہترین ہے؟
Assalam o alaikum Maham you explained all so well MashaAllah.❤.Your poem is heartbreaking..Few months back i wrote the poem on the topic dystopia vs hope for an online publication. The topic was given to us. My poem was selected for online publication.After asking them, i had it published in another publication wirh my other works ina compilation with many other coauthors.. It is about the callousness of high authorities.I want to share it with you.
DYSTOPIA VS HOPE
Hanging in the claws of an eagle,
Soaring high up in the sky,
You, little, menial creature
Like a splash you will fall down from its grip
And in a split second you will
POPUP and be no more.
Just a splash and thats the end.
You aristocrats! Why an eagle like attitude?
WHY we menials have to keep our mouth shut?
WHY not allowed to speak a word?
WHY to say shhh to all around?
Are we little creatures made,
to be smashed by you anytime?
Is this our FATE?
WHO ARE WE?
Are you the symbol of Jack of 'Lord of the flies'?
Or are we the Ralphs in this dystopian island?
I question again
WHO ARE WE?
READ, READ, READ
Read 'ANIMAL FARM' where
"The creatures outside looked from
Pig to man and from man to pig...
It was impossible to say which was which."
Fallen so low,
Are you indistinguishable from creatures?
STOP ALL THIS.
Its high time.
Search a torch bearer from between you all
Who will work his guts out.
With knowledge, enlightenment and intellectual
optimism
He'll turn the tables,
Will smash these skulls with eagle's attitudes...
This dystopian attitude,
So Ugly, So Hateful.
Will fight against subsevierence and totalitarianism.
This Savior, this Deliverer
This Redeemer, this Rescuer
Will turn this Dystopia to Utopia
I KNOW, YOU KNOW, ALL KNOW
It takes centuries for a Messiah to come.
But its never too late.
HOPE, HOPE, HOPE
The hubbub in our unconscious mind
The little ray of hope,
A little spark of light in the dark world,
A teeny meeny hope,
Is all that we have yet.
But its our firm faith, that
With our struggle,
And by joining hands with the Messiah
We will all, sooner or later, turn this world:
From Hopelessness to Hope,
Darkness to Light,
Nightmare to Tranquility
Hell to Heaven
AND
Dystopia to Utopia
ONE DAY.