آزادی کے نام
Breaking Free from "Log Kya Kahenge?" & Reclaiming Your Emotional Independence as a Desi Woman
اے پیاری سہیلی!
السلام علیکم
امید کرتی ہوں کہ آپ خیریت سے ہوں گی اور آپ کے دل پر اطمینان کے موسم کا راج ہوگا۔
رمضان آنے والا ہے اور موسم میں بھی کچھ تبدیلی سی نمایاں ہے جو کہ طبیعت کو خاصی بھلی معلوم ہوتی ہے۔ میرا تو ٹارگٹ ہے کہ اِس بار میں نے کچھ پیارے پیارے پھول گملوں میں لگانے ہیں۔ سوچتی ہوں چنبیلی کا پودا خوب رہے گا کیونکہ اِس کی خوشبو مجھے بہت پسند ہے۔ رمضان کے لیے بھی پلاننگ کرنی ہے، ایک meal plan پہلے سے بنا رکھا ہو تو روازنہ "آج کیا بناؤں" کی کوفت سے نجات مل جاتی ہے۔ آپ رمضان کی تیاری کیسے کرتی ہیں مجھے جوابی خط میں ضرور بتایے گا۔
ابھی چند دن پہلے کی بات ہے، ایک سہیلی سے بات ہو رہی تھی، کہنے لگی، "یار، سب موٹیوشن ختم ہو جاتی ہے جب اردگرد سے عجیب و غریب تبصرے سننے کو ملتے ہیں۔ انسان کی کوشش، اس کا وژن، اس کی ہمت، حتیٰ کہ اس کی ذات تک بے معنی لگنے لگتی ہے جب ایسی آوازیں انتہائی نزدیک سے آتی ہوں۔"
بات تو سچ تھی۔ invalidation واقعی انسان کو ٹوٹنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ناامیدی بڑھ جاتی ہے اور انسان self-doubt میں ڈوبنے لگتا ہے۔ خاص طور پر موجودہ دور کی نوجوان خواتین کو اس کا زیادہ سامنا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ ان کا موازنہ ہر دور کی عورت سے کیا جاتا ہے — اس سے بھی جو 1980 کی دہائی میں 8،10 بچے پیدا کر کے بڑے صحن والے گھروں کو سنبھالتی تھیں، اور اس سے بھی جو آج کی کارپوریٹ دنیا میں اپنی شناخت بنا رہی ہیں یا ایک کامیاب بزنس چلا رہی ہیں۔ اور خصوصاََ "لوگ کیا کہیں گے؟" کے اندھے تیروں کا نشانہ تو ہم سب ہی اپنی زندگی میں بنی ہیں (اور اِس سے تنگ بھی بہت ہیں)
میں کچھ لمحے کے لیے خاموش ہو گئی۔ "کیسی زیادتی ہے نا یہ؟" مگر یہی بات پھر میرے ذہن میں گھومتی رہی۔ آخر ایسا ہوتا کیوں ہے؟ کیا واقعی مسئلہ معاشرتی رویے ہیں؟ یا کچھ اور؟
تھوڑی سی ریسرچ اور گہری سوچ بچار کے بعد، ایک حقیقت کھل کر سامنے آئی:
ہم خود دوسروں کو اپنے جذبات پر اثر انداز ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔
ہمارے ہاں معاشی آزادی اور خودمختاری کے متعلق تو بہت بات ہوتی ہے۔ خواتین کے دماغ میں یہ بات بٹھا دی گئی کہ معاشی طور پر مستحکم اور آزاد ہونا اُن کی طاقت ہے۔ مگر کیا آپ نے کبھی غور کیا؟ کہ اکثر معاشی طور پر مستحکم اور آزاد خواتین بھی جذباتی مسائل کا شکار ہیں؟ میرا خیال ہے کہ معاشی طور پر، ایک فیملی یونٹ میں، کسی دوسرے پر انحصار کرنا کمزوری قطعاََ نہیں ہے۔ مگر جذباتی طور پر یہی انحصار ایک کمزور شخصیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایک ایسی عورت جو فیصلہ سازی کا ہنر نہیں جانتی کیونکہ وہ بااعتماد نہیں وہ کیسے کسی گھر کی بنیاد رکھ سکتی ہے؟ وہ کیسے مضبوط رشتے بنا سکتی ہے جن میں اعتبار اور اعتماد سرِ فہرست ہوں؟ جن میں قدردانی اور وفا شامل ہو؟ ایک ہمہ دم خوف میں لپٹا ہوا دِل کھُل کر محبت کرنے کے قابل ہے نہ نفرت کرنے کے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جذباتی انحصار ہے کیا اور یہ ہماری روزمرہ زندگی میں کیسا دِکھتا ہے؟ ہم اکثر اپنی خوشی، اعتماد، اور سکون کو دوسروں کے الفاظ اور رویوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ جب کوئی تعریف کرے تو خوش، جب کوئی تنقید کرے تو اداس۔ گویا ہم، ہمارا دل، ہمارا مَن، ہمارا ذہن ایک کٹھ پتلی کی طرح ہے اور اس کی ڈوریں دراصل دوسرے کے ہاتھ میں ہے۔ یہ سب بہت بچپن سے ہمارے اندر ڈال دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے ابتدائی سالوں میں تو کسی حد تک اِس انحصار کی ضرورت بھی ہوتی ہے مگر یہی انحصار ہماری عادت بنتا چلا جاتا ہے۔ معاشرتی رویے ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ ہماری قدر یا "سیلف ورتھ" کا تعلق دوسروں کی آراء سے ہے اور اُن کی منظوری ہی اہم ہے۔ ذاتی عدم تحفظات، قربانی اور برداشت کے غیر فطری تقاضے اور معاشرتی دباؤ بھی جذباتی انحصار پیدا کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہم "لوگ کیا کہیں گے؟" کو جتنا بھی برا جانیں، تحت الشعور میں کہیں ہم بھی اسی مائنڈ سیٹ کو اپنا لیتے ہیں اور ہمارا ہر قدم، ہر عمل ہماری اپنی ذات کے مطابق نہیں بلکہ دوسروں کے مطابق ترتیب پانے لگتا ہے۔
کبھی آپ نے خود کو آئنے میں دیکھا؟ اور یہ سوچا کہ کیا یہ آپ ہی ہیں؟ یا سامنے دِکھنے والے عکس میں موجود انسان انتہائی احتیاط کے ساتھ بنایا گیا ایک خول ہے جو آپ نے خود پر چڑھا رکھا ہے؟ ایک ایسا خول جو کہ اُس ماحول سے مطابقت رکھتا ہے جس میں آپ ہیں، تاکہ آپ کو قبول کیا جائے، آپ کی ذات کو منظوری ملے اور آپ کی قدر کی جائے۔۔۔ اور اب۔۔۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب یہ خول مضبوط ہو گیا ہے تو آپ کو اِس میں اپنی سانس گھٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
لیکن ذرا سوچیں:
"کیا واقعی دوسروں کی آراء اتنی ہی اہم ہے کہ وہ ہم پر یوں اثر انداز ہو سکیں؟"
چلیں ایک اور بات کرتی ہوں یہاں۔ آپ نے اپنے اردگرد ایک چیز نوٹ کی ہے؟ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارا (مجموعی طور پر) فیصلہ سازی کا ہنر کیسا کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ کسی بھی سطح پر کسی بھی انسان کو دیکھ لیجے، آپ کو احساس ہو گا کہ فیصلہ سازی اُس کے لیے ایک بہت مشکل امر بنتا جا رہا ہے۔ آپ جانتی ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ جی ہاں! اِس کی وجہ ہے جذباتی انحصار۔ جذباتی انحصار انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ یہ آپ کا اعتماد چھین کر آپ کی ذات کی اصل پہچان کو گم کر دیتا ہے۔ نتیجتہََ آپ people pleaser بن جاتے ہیں، آپ مشکل فیصلے لینے سے، حساس اور غیرآرامدہ موضوعات پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ یہ باتیں رفتہ رفتہ آپکی ذہنی صحت کو برباد کرنے لگتی ہیں۔ اور اب سوچیے ایک، اِن تمام خصوصیات کا حامل انسان، اپنے مقاصد کا حصول کیسے اور کیونکر کر پائے گا؟
مگر اچھی خبر یہ ہے کہ جیسے جذباتی انحصار کوئی built in شے نہیں اسی طرح جذباتی آزادی اور ذہانت (emotional independence and emotional intelligence) بھی سیکھی جا سکتی ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ آپ کو اِس کا پختہ ارادہ کرکے اس کی جانب حوصلے اور ہمت کے ساتھ قدم بڑھانا ہوگا۔ کیونکہ شروعات میں آپکو یہ فیصلہ بہت تنگ کرے گا، جب آپ لوگوں کی توقعات کے برعکس اپنی ذات کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیں گی۔
آپ اِس کو کیسے پریکٹس کر سکتی ہیں اس کے کچھ عملی اقدامات یہ ہیں:
اپنی قدر خود پہچانیں: دوسروں کی رائے آپ کی قدر و قیمت نہیں ماپ سکتی۔ اپنی خودی کا احساس دل میں جاگزین کریں۔
احساسات کی شناخت: جب کبھی کسی بات سے دل بھاری ہو، خود سے پوچھیں، "کیا میں نے اپنے جذبات اور محسوسات کی کنجی کسی اور کے حوالے تو نہیں کر دی؟"
حدود مقرر کریں: ہر تعلق ہر رشتہ خوبصورت ہوتا ہے جب اس میں حدود کا احترام ہو۔ اپنی ذہنی اور جذباتی حد بندی واضح کریں اور پھر اس پر قائم رہیں۔
توجہ کا رخ بدلیں: دوسروں کی آراء سے زیادہ اپنی ترقی اور جذباتی استحکام پر توجہ دیں۔ اپنی ذات کی فلاح اور شخصیت کے نکھار کی جانب کام کریں اور خود کو اس قابل بنائیں کہ آپ "وقت" پر ایک مثبت نشان چھوڑ پائیں۔
اس کے علاوہ کچھ نہایت اچھی کتب بھی اس موضوع پر موجود ہیں جیسے Daniel Golman کی Emotional Intelligence یا Brene Brown کی The gifts of imperfection۔ یہ کتب جذباتی ذہانت اور جذباتی خودمختاری اور آزادی پر انتہائی موثر انداز میں بات کرتی ہیں۔
یہاں ایک اہم بات۔۔۔ جذباتی آزادی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ بے حس ہو جائیں۔ بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ اپنے جذبات کو اپنے ہاتھ میں لیں، خود کو کسی اور کی بات سے آسانی کے ساتھ متاثر نہ ہونے دیں۔ کوئی تنقید کرے تو اسے حوصلے اور ہمت کے ساتھ سنیں، کام کی بات نکالیں اور باقی بات کو خیر آباد کہہ دیں۔ یہ ہنر ناصرف آپ کو غیر فطری توقعات سے آزاد کرے گا بلکہ آپکو بھی یہ سکھائے گا کہ کس قسم کی توقعات کا باندھنا محض بے وقوفی ہے اور یوں آپ اپنے ارد گرد موجود رشتوں کے ساتھ ایک بہتر اور مظبوط تعلق کو استوار کر پائیں گی۔ آپ کو پتا ہے جب آپ اِس ہنر کو سیکھ جائیں گی تو آپ خود کو ایک مظبوط شخصیت کے روپ میں پائیں گی۔ ایک ایسی لڑکی جو زندگی کے کسی بھی موڑ پر کسی بھی قسم کے مشکل حالات کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ جو پُراعتماد ہے اور اپنے فیصلے عقلمندانہ انداز میں لینا جانتی ہے۔ جس سے خیر پھوٹتی ہے اور جو آئندہ آنے وال نسلوں میں خیر کے بیج کو بو سکنے کے قابل ہے۔
آخری بات:
جب بھی زندگی کے شور میں اپنے دل کی آواز مدھم پڑتی محسوس ہو، تو کچھ دیر رُک جائیں، سانس لیں، اور خود سے یہ پوچھیں: "کیا میں اپنی کہانی اپنی مرضی سے لکھ رہی ہوں یا کسی اور کے قلم سے؟"
خود سے جُڑیں۔۔۔ اپنے جذبات کی مالک بنیں۔۔۔۔ کیونکہ یہ آپکی طاقت ہیں اور اُس سکون کو حاصل کریں جو صرف خودشناسی اور خود انحصاری سے ملتا ہے۔ ہم سب زندگی میں کہیں نہ کہیں اِن بھول بھلیوں میں گُم ہو جاتے ہیں۔ مگر یاد رکھیے، یہ فیصلہ ہمیشہ ہمارے اپنے ہاتھ میں رہتا ہے کہ ہم نے اِن میں گُم رہنا ہے یا اپنا راستہ ڈھونڈ کر خود کو اِن اندھیرے جنگلوں سے آزاد کرنا ہے۔
آپ اِس موضوع کے متعلق کیا سوچتی ہیں؟ کن مسائل کا سامنا ہے آپ کو؟ اور کس طرح آپ نے خود کو جانا ہے؟ مجھے جوابی خط میں لکھ بھیجیے۔ آپ کی قیمتی آراء کا انتظار رہے گا۔