پیاری سہیلی!
السلام علیکم!
کیسی ہیں آپ؟ امید کرتی ہوں کہ آپ خیریت سے ہوں گی اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ پر ہمیشہ اپنی رحمت کے سائے قائم رکھے۔ آمین۔
زندگی نجانے کیسے اتنی مصروف سی ہو گئی ہے کہ اب سمجھ ہی نہیں آ رہا وقت کدھر کو بھاگا چلا جاتا ہے۔ اب بھی یہ خط لکھنے بیٹھی ہوں تو خوب اچھے سے اندازہ ہے کہ پیچھے کتنے ناغے ہو چکے ہیں۔ مگر میں مکتوب کو ایک نئے اور بہتر انداز میں آپ کے سامنے لانا چاہ رہی تھی، جس میں جو بھی بات کہوں وہ سائنسی اور تجرباتی بنیادوں پر درست ہو۔ اس کے لیے مجھے موضوعات کی گہرائی میں جا کر انہیں سمجھنے کی ضرورت تھی اور یوں کچھ ہفتے درمیان میں سے خاموشی سے سرک گئے۔ خیر، یہ سب تو حصہ ہے زندگی کا۔
ایک وہ وقت بھی تھا جب ہم آزادی کی خواہش کرتے تھے، اور ایک یہ وقت ہے جب ہم آزاد ہیں، لیکن ذمہ داریوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے ہمیں ان بےفکر دنوں کی یاد دلاتے ہیں۔ اسی سے یاد آیا کہ ایک بار سکول کے دوران ہماری بہت ہی محترم معلمہ نے کہا تھا کہ ابھی آپ لوگ آزادی کی خواہش میں باؤلے ہو جاتے ہیں۔ آپ سوچتے ہیں کہ کب ہم بڑے ہوں گے اور اپنے فیصلوں میں باختیار ہو جائیں گے، مگر آپ نہیں جانتے کہ آزادی کی ایک بھاری قیمت ہے۔۔۔ وہ ہیں ذمہ داریاں۔ انسان آزاد ہوتا ہے تو ذمہ دار بھی ٹھہرتا ہے۔ تب یہ باتیں کہاں سمجھ آتی تھیں؟ تب سوچا ہی نہیں تھا کہ یہ آزادی کی خواہش ہمیں کمفرٹ زون سے نکال کر دنیا کے سامنے لا کھڑا کرے گی۔ شومئی قسمت، ہم نے یہ بھی نہ سیکھا اور نہ سکھایا گیا کہ جب ایسا ہوگا تو کرنا کیا ہے، کیسے سروائیو کرنا ہے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ ہر کوئی کہتا ہے زندگی مشکل ہے، لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ جب ہم اپنا مانوس ماحول چھوڑیں گے، تو اس نئے سفر میں کیا کرنا ہے۔ سو ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا۔ دس بارہ سال کے مانوس ماحول اور رشتوں کو جب چھوڑا تو ہونقوں کی طرح ٹکر ٹکر دنیا کا منہ تکنے لگے۔ ذرا ذرا سی بات پر ہاتھ پاؤں پھولنے لگتے تھے، گویا سب کھا جائیں گے (حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا، بس دماغ کا فتور)۔ اب جب مڑ کر دیکھتی ہوں اور اس وقت کی انسان کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں، تو احساس ہوتا ہے کہ بس ایک ہنر کی کمی تھی۔۔۔۔ وہ ہے نئے رشتے بنانے اور نئے ماحول کے مطابق خود کو ڈھالنے کا ہنر، یا انگریزی میں جو لفظ اس کا بہتر احاطہ کرتا ہے، وہ ہے adaptability یعنی موافقت کا ہنر۔
ذرا ایک لمحے کو سوچیں کہ کتنی بار زندگی کے موڑ پر آپ کو بھی لگا ہوگا کہ بس دنیا ختم ہو چکی ہے۔ نہ کوئی مانوس چہرہ، نہ کوئی مانوس در۔ جن کے ساتھ ایسا نہیں ہوا، وہ تو خوش قسمت ہیں۔ مگر پاکستانی معاشرے میں ہم خواتین کو، خصوصاً نوجوان خواتین کو، جب اپنی شناخت بنانے، تعلیمی یا معاشی اہداف حاصل کرنے، یا سماجی چیلنجز سے نمٹنے کی ضرورت ہوتی ہے، تو ایسی دقت کا سامنا ضرور ہوتا ہے۔ ایک عام فہم مثال شادی کی ہے۔ چاہے شادی خاندان میں ہوئی ہو یا خاندان سے باہر، جب آپ ایک نئے بندھن میں بندھ کر نئے گھر جاتی ہیں، تو سب کچھ نامانوس لگتا ہے۔۔۔ لہجے، رویے، نظریں، چہرے، رشتے۔ کیا ہی خوب ہو اگر ہمیں معلوم ہو کہ اس نئے ماحول میں کیسے ڈھلنا ہے، کیسے اسے اپنانا ہے کہ وہ انجان نہ رہے۔
مگر یہ ہنر ہم کیوں نہیں سیکھ پاتے؟ شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمیں بچپن سے رشتے نبھانا تو سکھایا جاتا ہے (کسی حد تک)، مگر نئے رشتے بنانا نہیں۔ ہم مانوس رشتوں کے درمیان جینا تو جانتے ہیں، لیکن اجنبی لوگوں کو اپنانے کا فن ہمیں نہیں معلوم۔ کتنی بار ہم ڈر یا خوف کی وجہ سے پہل نہیں کرتے؟ یا تو ہم سمجھتے ہیں کہ وقت خود ہی سب کچھ ٹھیک کر دے گا (کیسے؟ جادو سے؟) یا پھر یہ کہ دوسرا پہل کرے، مجھے قبول کرے، مجھے سمجھے۔ لیکن کیا ہم نے کبھی دوسرے کے تناؤ یا ڈر کو سمجھ کر، مسکرا کر اسے اپنانے کی کوشش کی؟
یہاں ایک اور غور طلب بات یہ ہے کہ جب ہم پہل نہیں کرتے، تو ہمارا منفی تاثر بنتا ہے۔ جو شخص fear of judgment کی وجہ سے آگے نہیں بڑھتا، وہ اکثر "مغرور" یا "خود پرست" سمجھا جاتا ہے۔ یہ تاثرات جتنی جلدی ختم ہوں، اتنا بہتر، ورنہ یہ دیوار انسان کے قد سے کئی گنا اونچی ہو جاتی ہے، جس کے پار دیکھنا یا اسے گرانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جاتا ہے۔
ماہر نفسیات کارول ڈویک اپنی کتاب Mindset: The New Psychology of Success میں کہتی ہیں کہ اگر ہم یہ مان لیں کہ ہماری صلاحیتیں سیکھنے سے بہتر ہو سکتی ہیں، تو ہم نئے ماحول میں آسانی سے ڈھل سکتے ہیں۔ یہ سوچ ہم پاکستانی خواتین کے لیے بہت اہم ہے، کیونکہ ہم اکثر سماجی دباؤ کی وجہ سے خود پر شک کرنے لگتی ہیں۔ مثال کے طور پر، شادی کے بعد نئے گھر میں ایڈجسٹ ہونا آسان نہیں ہوتا۔ لیکن اگر ہم چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائیں ۔۔۔ جیسے نئے خاندان کے افراد سے ان کی پسند ناپسند پوچھنا، ان کے معمولات کو سمجھنا، یا اپنی صلاحیتوں (جیسے کھانا پکانا یا گھر سنبھالنا) کو استعمال کریں تو آہستہ آہستہ وہ ماحول اپنانا آسان ہو جاتا ہے۔
اب موافقت کا یہ ہنر ہمیں نہ صرف نئے ماحول میں ڈھلنے میں مدد دیتا ہے بلکہ ہمیں مضبوط اور خود اعتماد بھی بناتا ہے۔ ماہر نفسیات ڈینیل گولمین اپنی کتاب ایموشنل انٹیلیجنس میں کہتے ہیں کہ اپنے جذبات کو سمجھنا اور ان کا انتظام کرنا ہمیں مشکل حالات سے نمٹنے کی طاقت دیتا ہے۔ اب ہماری دیسی خواتین اور لڑکیوں کے لیے، جو اکثر خاندانی ذمہ داریوں اور اپنے خوابوں کے درمیان توازن رکھنا چاہتی ہیں، یہ صلاحیت بہت ضروری ہے۔ چاہے وہ شادی کے بعد نیا گھر ہو یا نئی نوکری، اگر ہم ایک مسکان اور کھلے دل سے دوسروں سے تعلق بنانے کی کوشش کریں، تو نہ صرف ہمارا خوف کم ہوتا ہے بلکہ ہم دوسروں کے دلوں میں بھی جگہ بنا لیتے ہیں۔
نئے رشتے بنانے کا مقصد صرف نیا تعلق جوڑنا نہیں بلکہ اس بات کا اقرار بھی ہے کہ ہماری زندگی میں آنے والا ہر نیا شخص ہمیں کچھ نہ کچھ سکھاتا ہے۔ وہ ہمارے لئیے ہمارے ہی رزق کا کچھ حصہ لے کر آتا ہے جس کا وسیلہ خدا نے اسے بنایا ہوتا ہے۔ سو سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ نئے رشتے کیسے بنائے جاتے اور adaptive skill دراصل ہے کیا اور کیسے پریکٹس کی جائے۔
تو جناب موافقت (adaptability) ایک ایسی صلاحیت ہے جو انسان کو نئے ماحول، سماجی چیلنجز، اور ذاتی یا پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونے میں مدد دیتی ہے۔ یہ دراصل لچک (flexibility)، سیکھنے کی خواہش، اور نئے ماحول یا حالات کو قبول کرنے جیسی خوبیوں کا مجموعہ ہے۔ نفسیات کے نقطہ نظر سے، موافقت ایک اہم دماغی صلاحیت (cognitive ability) ہے جو انسان کو دباؤ (stress) سے نمٹنے اور مسلسل ترقی کرنے میں مدد دیتی ہے۔
علم نفسیات کے ماہر رابرٹ اسٹرنبرگ کے مطابق، موافقت عملی ذہانت (practical intelligence) کا حصہ ہے، جو کہ مختلف حالات میں مناسب فیصلے کرنے اور مسائل حل کرنے کی صلاحیت سے منسلک ہے۔ پاکستانی معاشرے میں، جہاں سماجی، معاشی اور سیاسی حالات تیزی سے بدلتے ہیں، یہ صلاحیت افراد کو اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں کامیابی حاصل کرنے میں مدد دیتی ہے۔
سو ذیل میں کچھ عملی تراکیب اور تجاویز دی گئی ہیں جو ہمیں اس ہنر کو اپنانے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں:
لچکدار سوچ (گروتھ مائنڈ سیٹ) اپنائیں
نئی چیزوں کو سیکھنے کے لیے دل کھلا رکھیں۔ ماہر نفسیات کارول ڈویک کے مطابق، یہ ماننا کہ آپ کی صلاحیتیں ترقی کر سکتی ہیں، موافقت کو آسان بناتا ہے۔ (اس پر میں نے اپنے پچھلے خط میں بات کی تھی جہاں ہم نے continuous learning کے موضوع کو ایکسپلور کیا تھا)
جذباتی ذہانت کو بہتر بنائیں
اپنے جذبات کو سمجھنا اور ان کا انتظام کرنا موافقت کا اہم حصہ ہے جیسا کہ ایموشنل اینٹیلیجنس نامی کتاب میں سکھایا گیا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں، جہاں خواتین کو خاندانی اور سماجی دباؤ کا سامنا ہوتا ہے، یہ صلاحیت تناؤ سے نمٹنے میں بہت مدد دیتی ہے۔ جب کبھی آپ نئے ماحول میں گھبراہٹ محسوس کریں (جیسے نئے دفتر یا سسرال میں)، گہری سانس لیں اور اپنے جذبات کو لکھ کر ان کا تجزیہ کریں۔ اس سے آپ پرسکون رہ کر بہتر فیصلے کر سکیں گی۔ (اس موضوع پر بھی پچھلے خطوط میں تفصیلی بات ہو چکی ہے)
نئی مہارتیں سیکھیں
پاکستانی معاشرے میں ڈیجیٹل معیشت کے عروج نے خواتین کے لیے نئے مواقع کھولے ہیں۔ نئی مہارتیں (جیسے گرافک ڈیزائن، فری لانسنگ، یا آن لائن مارکیٹنگ) سیکھنا موافقت کو فروغ دیتا ہے۔ آن لائن کورسز (جیسے Coursera یا YouTube ٹیوٹوریلز) کے ذریعے کوئی نئی مہارت سیکھیں۔ مثال کے طور پر، اگر آپ گھر سے کام کرنا چاہتی ہیں، تو ڈیجیٹل مارکیٹنگ یا ای-کامرس کے بنیادی کورسز سے آغاز کریں۔
سماجی رابطوں کو مضبوط کریں
نئے ماحول میں رشتے بنانا موافقت کا اہم حصہ ہے۔ اس کے لیے، پیشہ ورانہ یا کمیونٹی نیٹ ورکس (جیسے Women in Tech Pakistan) تعاون اور نئے خیالات فراہم کرتے ہیں۔ سو نئے ماحول (جیسے دفتر یا سسرال) میں ہر روز کسی شخص سے چھوٹی سی بات کریں۔ مثال کے طور پر، اپنے ساتھی کارکن سے ان کے کام کے بارے میں پوچھیں یا سسرال میں کسی سے ان کی پسندیدہ ڈش کے بارے میں بات کریں۔
چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائیں
موافقت بڑے اقدامات کے بجائے چھوٹے چھوٹے قدموں سے شروع ہوتی ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ چھوٹے مثبت اقدامات نئے حالات سے ہم آہنگی کو آسان بناتے ہیں ۔ اگر آپ نئے شہر یا گھر میں ہیں، تو ہر ہفتے ایک نئی چیز آزمائیں، جیسے کہ قریبی دکان سے خریداری کرنا یا کمیونٹی ایونٹس میں شرکت کرنا۔ یہ چھوٹے قدم آپ کو ماحول سے مانوس کریں گے۔
خوف سے نمٹنا سیکھیں
ایک ایسے معاشرے میں جہاں اکثر، مختلف انداز اور پہلوؤں سے، ہمیں تنقید کا سامنا رہتا ہے۔۔۔ اپنے خوف پر قابو پانا نہایت اہم ہے۔ fear of judgment فوافقت کو اپنانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاؤٹ ثابت ہو سکتا ہے۔
تجربات سے سیکھیں
ناکامیوں یا مشکلات کو سیکھنے کے مواقع کے طور پر دیکھیں۔ حکمت (wisdom) تجربات سے سیکھنے سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر کوئی نیا تجربہ (جیسے نوکری یا نئے خاندان میں ایڈجسٹ ہونا) مشکل لگے، تو ہر ہفتے اپنے تجربات کو ایک ڈائری میں لکھیں اور سوچیں کہ آپ نے اس سے کیا سیکھا۔ اس سے آپ کی خود آگاہی بڑھے گی۔
پیاری سہیلی، ہم خواتین بہت ہمت والی ہیں۔ ہم نے ہمیشہ چیلنجز کا مقابلہ کیا ہے، چاہے وہ خاندانی دباؤ ہو یا معاشرتی توقعات۔ بس ہمیں یہ یقین رکھنا ہے کہ ہر نیا موڑ ایک نیا موقع ہے۔ تو آئیں، اگلی بار جب کوئی نیا ماحول یا چیلنج سامنے آئے، تو ہم ڈر کی بجائے ہمت اور مسکراہٹ سے اس کا استقبال کریں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ اپنی کہانی ضرور سنائیں کہ آپ نے کبھی نئے ماحول کو کیسے اپنایا؟
اور ہاں اگر کبھی آپکو لگے کہ سب کچھ بدل گیا ہے اور کچھ بھی ویسا نہیں رہا۔۔۔۔ تو ڈرنا نہیں گھبرانا نہیں، بس یاد رکھنا کہ آپکے اندر وہ صلاحیت ہے جو کسی بھی اجنبی ماحول کو اپنا بنا سکتی ہے۔