اے پیاری دوست!
السلام علیکم!
امید کرتی ہوں کہ آپ خیریت سے ہوں گی اور رمضان کی برکتیں اور رحمتیں سمیٹنے میں خوب دلچسپی سے مشغول ہوں گی۔ میری دعا ہے کہ اللہ پاک آپ پر اپنا کرم اور فضل بنائے رکھے اور اس مہینے کی برکت سے آپ کی ذات کے دروازے آپ پر کھول دے۔
رمضان کا مہینہ ہے اور ہم سب شوق و دلچسپی محسوس کر رہے ہیں، ایمانی اعتبار سے ایک نیا جوش ہے دلوں میں کہ رب باری تعالیٰ کے ہاں اپنے درجات کسی طور بلند کروا لیں۔ اسی تناظر میں میں نے محسوس کیا ہے کہ سوشل میڈیا پر بھی بہت سے اکاؤنٹس خیر کی باتیں پھیلانے میں پیش پیش ہیں۔ میرا خیال ہے یہ ایک بہت اچھی بات ہے کہ اس ماہ میں سب کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ نیکی پھیلا سکیں، اور دعا یہی ہے کہ اس ماہ کے نیک اعمال ہمیں اس قابل بنا دیں کہ ہم باقی کا سال بھی اسی جوش و ولولے کے ساتھ خیر کی جستجو کریں۔
آپ ڈاکٹر نعمان علی خان سے تو واقف ہی ہوں گی۔ اُن کا ایک پرانا وڈیو کلپ ںظر سے گزرا۔ اُن سے کسی نے صبر کے متعلق پوچھا تھا جس کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستانی صبر اور قرآنی صبر میں بہت فرق ہے۔ اب اس بات نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آخر یہ بات اصل میں ہے کیا؟ کیسے فرق ہے؟ پتا چلا کہ پاکستانی صبر دراصل چپ چاپ زیادتی کو برداشت کیے چلے جانا ہے، جبکہ قرآنی صبر کہتا ہے کہ ظلم و زیادتی اور جبر کے خلاف آواز اٹھاؤ اور عمل سے اسے روکو، ناکہ خود خاموش ہو جاؤ۔
غور طلب بات یہ ہے کہ قرآن جس صبر کی ترغیب دیتا ہے، ہم اس کے برعکس ایک اور 'صبر' کیوں اپنائے ہوئے ہیں؟ جہاں اس کی ایک وجہ Emotional Intelligence اور Emotional Independence کی کمی ہے وہیں ایک اور نکتہ بھی قابلِ غور ہے۔ وہ ہے Resilience کا نہ ہونا۔
رزیلینس کا لفظ میں نے پہلی بار ماہ نور سے سنا تھا اور سچی بات ہے میں اِس سے واقف نہیں تھی۔ ریسرچ کرنے پر پتا چلا کہ جناب یہ تو خاصی حد تک صبر سے ملتی جلتی شے ہے، بس فرق اتنا ہے کہ resilience (استقامت) جذباتی اور نفسیاتی ایسپیکٹس کا ہنر ہے جبکہ صبر کا دائرہ روحانی، اخلاقی اور عملی زندگی تک پھیلا ہوا ہے۔ گویا یہ سب مفہوم میں ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔ میں آج آپ کے ساتھ ریزیلینس پر بات کرنا چاہتی ہوں۔ کیونکہ جذباتی اور نفسیاتی بحالی، میرے نزدیک، پہلا قدم ہے صبر کو پریکٹس کرنے کا۔
تو پھر رزیلینس ہے کیا؟ آسان الفاظ میں بات کروں تو ہر ٹھوکر کے بعد دوبارہ اٹھ کڑے ہونا۔ دیکھیں، زندگی اتار چڑھاؤ کا نام ہے، اس میں مشکلات بھی آتی ہیں اور پریشانیاں بھی۔ ریزیلینس وہ صفت ہے کہ آپ کسی انتہائی مشکل صورتحال کے بعد دوبارہ اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے حالات سے سیکھ کر ان کے مطابق جذباتی اور نفسیاتی طور پر adapt کریں اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے بغیر، زندگی میں ایک مثبت رویے کے ساتھ آگے کو بڑھتے چلے جائیں۔ بالکل جیسے وہ بچے ہوتے ہیں جو نیا نیا چلنا سیکھتے ہیں۔ چلنے میں دقت آتی ہے، قدم ڈگمگاتے ہیں، گرتے ہیں، مگر پھر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور آگے بڑھنے کے لیے دوبارہ سے قدم اٹھاتے ہیں۔
رزیلینس یعنی استقامت آپکی دنیا و آخرت میں کامیابی کی ضامن تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ یہ آپکو سماجی دباؤ کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اگر آپ ایک ایسی خاتون بننا چاہتی ہیں جو کہ tabos کو توڑے اور ٹاکسک سایکلز کو ختم کرے تو یقین مانیے یہ صفت آپ کے بہت کام آنی والی ہے۔
جہاں جہاں آپ معاشرتی اقدار میں shift دیکھیں گی آپ کو رزیلینس ہی کارفرما نظر آئے گی۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی تو انہی صفات کے حامل، وہ کامل شخصیت تھے جنہوں نے دین اسلام کو انتہائی مشکل حالات میں پھیلایا۔ آپ سوچیے کہ اتنی زیادہ مخالفت اور مزاحمت کے باوجود اسلام تب سے اب تک پھیلتا چلا جا رہا ہے۔۔۔ کس وجہ سے؟ جی بالکل، اس کو پھیلانے والوں کی استقامت کی وجہ سے۔ چاہے وہ ٹیکنالوجی کی دنیا ہو یا دیسی ماحول میں لڑکیوں کو تعلیم دلوانے کی بات، ہر جگہ کامیابی اور بدلاؤ کی وجہ یہ استقامت ہی بنی۔
اب اگر استقامت کا صبر کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے تو اسے پریکٹس کیسے کیا جائے؟ اس کے لیے چند عملی اقدامات یہ ہیں:
سوچ کا زاویہ بدلیں
یہ مانیں کہ مشکلات زندگی کا حصہ ہیں – ہر مشکل ناکامی نہیں، بلکہ سیکھنے اور بڑھنے کا موقع ہے۔
جذباتی مضبوطی پیدا کریں – غصے، اداسی یا دباؤ میں خود کو بہتر طریقے سے سنبھالنا سیکھیں۔
مثبت سوچ اپنائیں – کسی بھی مسئلے پر رکنے کے بجائے، حل اور سیکھنے کے پہلو پر توجہ دیں۔
اپنی قدر کو پہچانیں – یقین رکھیں کہ آپ مشکلات کا سامنا کر سکتی ہیں اور بہتری کی حقدار ہیں۔
لوگوں کی رائے سے آزاد ہوں – آپ کی استقامت کا انحصار دوسروں کی منظوری پر نہیں ہونا چاہیے۔
عملی عادات اپنائیں
اچھے لوگوں کا ساتھ رکھیں – ایسے لوگوں سے جُڑیں جو آپ کو حوصلہ دیں، نہ کہ حوصلہ توڑیں۔
جسمانی صحت کا خیال رکھیں – اچھی نیند، متوازن غذا اور ورزش ذہنی صحت پر اثر ڈالتی ہے۔
چھوٹے، ممکنہ اہداف مقرر کریں – بڑے چیلنجز کو چھوٹے حصوں میں تقسیم کریں تاکہ حوصلہ قائم رہے۔
مسائل حل کرنے کی صلاحیت بڑھائیں – مشکلات کو دیوار نہیں، بلکہ ایک پہیلی سمجھیں جس کا حل ممکن ہے۔
کمفرٹ کے دائرے سے نکلیں – اپنی حدود کو چیلنج کریں تاکہ ذہنی طاقت بڑھتی رہے۔
صبر و استقامت ذات کی وہ صفت ہے جو انسان کو انسان بناتی ہے۔ اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم نے وہ صبر اپنانا ہے جو ہمیں کمزور اور بزدل بناتا ہے یا صبر و استقامت کو اسوہ حسنہ سے سیکھ کر بہادر اور پراعتماد بننا ہے۔ اس متعلق سوچیے گا کہ صبر کی وہ کون سی قسم ہے جو آپ کو مدد دے سکتی ہے کہ آپ ایسی نسلوں کو پروان چڑھائیں جو ہمت و بہادری کے اُس درجے پر ہوں کہ دنیا و آخرت میں آپکو سرخرو کر دیں۔
اگر آپ کو آج کا موضوع پسند آیا ہو تو خط کو اپنی سہیلیوں اور دوستوں کے ساتھ شئیر کریں۔
صبر و استقامت پر آپ کی کیا رائے ہے مجھے ضرور بتایے گا۔ آپ کے جوابی خطوط مکتوب کو نکھارنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
beautifully structured! so wholesome! <3
Happy ramzan to you too.