اے پیاری سہیلی!
السلام علیکم!
امید کرتی ہوں آپ خیر و عافیت سے ہوں گی اور آپ کی زندگی کے راستے خدا کے نور کی روشنی سے منور ہوں گے۔
آج میں آپ سے بات کرنا چاہتی ہوں اس تاثر کی جو میرے متعلق بنتا چلا جا رہا ہے۔ مکتوب کے گزشتہ شماروں سے بعض احباب کو ایسا محسوس ہوا ہے کہ میں فردیت یعنی individualism کی قائل ہوں۔ ایک ایسا فلسفہ جو کہ فرد کو تعلقات اور رشتے توڑنے پر مجبور کرتا ہے اور ایک ایسی سوچ جو آہستہ آہستہ انسان کو اکیلا کر دیتی ہے۔
مگر ایسا ہرگز نہیں ہے۔
ہمارا معاشرہ اپنی ساخت، روایات اور طرزِ زندگی میں اجتماعیت کا آئنہ دار ہے۔ خاندانی نظام چاہے گاؤں ہو یا شہر، انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔۔۔۔ جہاں رشتوں اور تعلقات کی اہمیت ہر انداز ہر پہلو سے عیاں ہے۔ ہمارے معاشرے میں اجتماعیت کے مثبت اور منفی دونوں پہلو من و عن سے موجود ہیں۔ جہاں ایک طرف غمی خوشی میں ایک دوسرے کا ساتھ میسر ہوتا ہے، وہیں دوسری جانب انسان کی انفرادیت اس اجتماعی طرزِ حیات نے چھین لی ہے۔ 'لوگ کیا کہیں گے' جیسے سوالات بہت سے خوابوں کو نگل جاتے ہیں اور فیصلوں کا اختیار تک بعض اوقات میسر نہیں ہوتا۔
ایسی صورتحال میں مکتوب ایک ایسا فلسفہ پیش کرتا ہے جہاں فردیت، اجتماعیت کی جڑوں میں کسی کھاد کی طرح شامل کی جائے۔ یعنی ان دونوں فلسفوں کا ایک ایسا توازن جو کہ رشتوں اور تعلقات کے حسن کو برقراز بھی رکھے اور فرد کو کھُل کے جینے کی اجازت بھی۔ اور یہی ہمارے دین کا بھی فلسفہ ہے۔۔۔ جہاں ایک جانب انسان اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے وہیں دوسری جانب قطع تعلقی اور سماجی روابط کی بحالی اور احسن انداز میں نباہ کو فروغ دیا گیا۔
فرد معاشرے کی اکائی ہے۔ اس اکائی کا ایک طاقتور شخصیت کا مالک ہونا نہایت اہم ہے۔ فرد کا اپنی اصلاح کے لئیے کوشش کرنا۔۔۔ ماحول میں موجود منفی رجحانات کو کم کرنے کی کوشش کرنا اور جذباتی اعتبار سے آزاد اور ذہین ہونا اس امر کے لئیے ناگزیر ہے کہ آنے والی نسلیں اعلیٰ انسانی اخلاق و اقدار کی حامل ہوں۔ اجتماعیت میں پنپنے والے مسائل کا واحد حل فرد کا تشخص برقرار رکھنا اور اس کی عزت ہے۔ انفرادیت کو جب بھی پسِ پشت ڈالا جائے گا، اجتماعیت بھی ناکام ہو جائے گی۔
سو یہ بات تو صاف ہے کہ فردیت کے جس پہلو پر ہم، مکتوب میں، بات کرتے ہیں وہ خود غرضی نہیں ہے۔ جیسا کہ فردیت کی ایک انتہائی شکل جب مغربی معاشروں میں ظہور پذیر ہوئی تو وہاں تنہائی کی عفریت نے بہت سوں کو نگل لیا۔ ہم فردیت کو جس انداز میں دیکھتے ہیں، یا دیکھنا چاہتے ہیں وہ اجتماعیت کو نکھار بخشنے والی سوچ ہے، جو فرد کا رشتوں کے ساتھ تعلق نہ صرف بحال کرتی ہے بلکہ ان کو گہرا اور مضبوط بناتی ہے۔
اس بات کو یوں سمجھیں کہ ایک ماں جب تک خود جذباتی طور پر آزاد یا ذہین نہیں ہوگی وہ کیسے اپنی اولاد کو جذباتی ذہانت کا تحفہ دے سکتے گی؟ کیسے وہ اُن کی تربیت میں ان عوامل کو شامل کر سکے گی جہاں وہ معاشرے کے ایسے باشعور افراد بن سکیں گے جو کہ نہ صرف خود اپنے جذبات و احساسات کو سمجھ پانے اور مینیج کر پانے کے قابل ہوں گے بلکہ دوسروں کی بھی ان عوامل میں مدد کریں۔ ایسی ماں جو اپنے جذبات کو پہچاننا نہ جانتی ہو، وہ اولاد کو صرف فرائض سکھائے گی، جذبات کی پرورش نہیں۔ اور یہ عمل معاشرے میں ایک گھٹن زدہ ذہنی کیفیت کو فروغ دے گا۔
یا پھر ایک باپ، جس کی زندگی کا مقصد محض نو سے پانچ تک کی نوکری کر کے ایک مخصوص رقم کمانا نہیں ہوگا بلکہ اس کا خواب خود سے باہر، انسانوں کی بھلائی میں بستا ہو، تب وہ نہ صرف اپنے بچوں کا محسن بنتا ہے، بلکہ معاشرے کا بھی ایک باشعور ستون بن جاتا ہے۔ اس خواب کو سینچنے کے لئیے اس شخص کو بحثیتِ فرد خود پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہوگی، تبھی وہ اپنے اہداف کو حاصل کر پائے گا۔
اب ایک اور زاویہ دیکھیے۔ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب ہم اپنی ذات کے کسی پہلو پر کام کرنے لگتی ہیں۔ جیسے عموماََ جب ہم "نہ" کہنے کی مشق کر رہی ہوتی ہیں تو لگتا ہے گویا ہم رشتے توڑ رہی ہیں۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ یہ وہ مشکل 'فیز' ہے جس سے گزر کر ہی 'انفرادیت' جیسا موضوع اس تمام بحث کا حصہ بنتا ہے۔ رشتوں کی بقا کا انحصار فقط ہاں میں نہیں، ایک متوازن 'نہ' میں بھی ہے جو نہ صرف ہمیں خود سے جوڑتی ہے، بلکہ دوسروں کے ساتھ صحتمند تعلق قائم رکھنے کی بنیاد رکھتی ہے اور یہی صحت مند رشتے و تعلقات اجتماعیت کا حسن بنتے ہیں۔
تو جناب مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ
فرد اور معاشرہ ایک دوسرے کے آئنے ہیں
فرد کی روشنی اجتماعیت کو منور کرتی ہے
اور اجتماعیت کی گود فرد کو پروان چڑھاتی ہے
ایک کے بِنا دوسرے کا کوئی وجود نہیں
اور ہمارے اس معاشرے کی سب سے خوبصورت اور منفرد بات بھی تو یہی ہے کہ ہماری میٹھی پیاری زبان اردو کی طرح، اس کی آغوش بھی اتنی وسیع ہے کہ یہ مختلف فلسفہ ہائے حیات کو خود میں سمو لے۔۔۔۔
تو جناب!
بحثیتِ فرد آپ کیا سمجھتی ہیں۔۔۔ کیا اجتماعیت کے منفی پہلوؤں کو فردیت کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو فرد اس کی کوشش کیوں نہیں کرتا؟
اپنا نکتہ نظر مجھے جوابی خط میں لکھ بیجیے۔ آپ کے خطوط میرے لئیے حوصلہ افزائی کا وہ دیا ہیں جس میں مکتوب اپنے آپ کو تشکیل دیتا ہے۔
اگر آپکو مکتوب کا یہ شمارہ پسند آیا ہو تو اپنی سہیلیوں اور دیگر خواتین کے ساتھ اسے شئیر کریں
Assalam o alaikum .Hope you are fine and all is well.Good effort .Keep it up❤ Aap ki struggle aik din zror rang lai ghe