اے پیاری سہیلی!
السلام علیکم!
امید کرتی ہوں آپ خیریت سے ہوں گی۔ اور میری دعا ہے کہ آپ کے گھر میں اور زندگی میں بھی اللہ کی رحمتوں کا سایہ برقرار رہے۔
ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ نظر سے گزری۔۔۔ ایک نوجوان لڑکی کا کہنا تھا کہ کیونکہ گھر میں مائیں اپنی بیٹیوں سے بہت زیادہ کام کرواتی ہیں، اُن کو نوکروں سے بد تر صورتحال میں رکھتی ہیں اور اُن کے ساتھ برا سلوک کرتی ہیں، اُن سے حسد کرتی ہیں، اور چونکہ باپ بھی اس سب میں خاموش تماشائی بنے اپنی بیویوں کا ہی ساتھ دیتے ہیں اس لئیے لڑکیاں گھر چھوڑ کر بھاگ جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ جی ہاں! خاتون نے یہی لکھا تھا، اور میں بھی آپ کی طرح کچھ وقت یوں ہی حیران پریشان بیٹھی رہ گئی تھی۔۔۔مگر سچ پوچھیں تو یہ صرف جذباتی ردعمل نہیں۔۔۔ یہ ایک بڑھتی ہوئی سوچ کی علامت ہے کہ رشتے اگر خدمت یا ذمہ داری مانگیں تو وہ قابلِ فرار ہو جاتے ہیں۔ یہاں لڑکی صرف گھر نہیں چھوڑتی۔۔۔ وہ رشتہ، نسبت، اور وابستگی سے جُڑا ہر تصور چھوڑ دیتی ہے۔
کئی نوجوان لڑکیاں اب شادی سے بھاگتی ہیں،اس وجہ سے نہیں کہ وہ 'کمزور' ہیں۔۔۔ بلکہ صرف اس لئیے کیونکہ وہ 'محفوظ' رہنا چاہتی ہیں۔۔۔ مگر اس کوشش میں وہ تنہائی، بے یقینی اور ایک نئی غیر مرئی قید میں داخل ہو جاتی ہیں، جو آزاد تو نظر آتی ہے، مگر اندر سے کھوکھلی ہوتی ہے۔
میں مانتی ہوں اور جانتی ہوں کہ پیرنٹنگ میں ہماری پچھلی نسلوں نے کوئی بہت زیادہ قابلِ ذکر مثبت مثالیں قائم نہیں کیں۔۔۔ مگر پیرنٹنگ پر بات پھر کسی روز کریں گے کیونکہ یہ ایک نہایت اہم اور تفصیل طلب موضوع ہے۔۔۔۔ آج میں صرف اس مائنڈ سیٹ اور اس قسم کے زاویہ نگاہ پر بات کرنا چاہوں گی۔ کیونکہ یہ ایک علامت ہے۔۔۔۔ ایک بہت خوفناک بیماری کی جو آہستہ آہستہ ہمارے معاشرے میں بھی سرائیت کرتی جارہی ہے۔
اپنے پچھلے خط میں میں نے آپ سے فردیت اور اجتماعیت کے متعلق بات کی تھی۔ فردیت یعنی کہ individualism فرد کے اپنے گرد گھومنے والا فلسفہ ہے، جبکہ اجتماعیت میں کمیونیٹی کے حقوق کو ترجیح دی جاتی ہے۔ میں نے اپنے خط میں اجتماعیت اور فردیت کے ایک توازن کا ذکر کیا تھا جو کہ فرد کی بہتری کو کمیونیٹی کی نشونما کے طور پر دیکھتا ہے۔
اب آپ سوچیں گی کہ میں یہاں اس موضوع کو کیوں لے آئی ہوں۔۔۔۔ تو جناب اوپر جس بیماری کا میں نے ذکر کیا ہے، جو کہ دھیرے دھیرے ہمارے معاشرے میں سرائیت کرتی جا رہی ہے، جس کی علامات میں سے ایک کو خط کے شروع میں پیش کیا وہ فردیت کی غیر صحتمندانہ انتہا ہے۔
ہمارا معاشرہ ثقافتی اور تاریخی اعتبار سے اجتماعیت پر پلا بڑھا ایک ایسا سسٹم ہے جہاں فرد کو کبھی اہمیت نہیں دی گئی۔۔۔ میں اس بات کو بخوبی سمجھتی ہوں کہ اجتماعیت کی اس انتہا کی وجہ سے ہماری نسلیں کسی حد تک باغی ہونے لگیں، جب انہوں نے اپنے گھروں میں فرد کو سسکتا بلکتا ہوا دیکھا۔۔۔ وہ اجتماعیت کے ہر اس سسٹم سے جان چھڑانا چاہتے ہیں جو انہیں دوسرے انسانوں کی ذمہ داریوں میں باندھ دے۔ خصوصاََ ہم نے اپنی دادیوں، نانیوں اور ماؤں کو جس طرح تکلیف میں مبتلا دیکھا ہم نہیں چاہتے کہ ہم بھی اپنی تمام زندگی انہی گورکھ دھندوں میں الجھے ہوئے گزار دیں۔۔۔ جہاں ہماری خدمات کو، اپنے جسم اور اپنی ہڈیوں کے گھول دینے کو، اپنی روح کو اپنے دل کو کچل دینے کو کبھی سراہا نہیں گیا۔ چاہے وہ گھر کے چھوٹے چھوٹے کام ہوں، دن میں تین مرتبہ برتن دھونا ہو یا اپنے خوابوں کو، اپنی خواہشوں کو کچل دینا ہو۔۔۔۔ ہم نہیں چاہتے ہمیں اس سب سے گزرنا پڑا۔۔۔۔ یہی وہ مشاہدات ہیں جنہوں نے لڑکیوں میں یہ گمان راسخ کر دیا ہے کہ شادی، خاندان اور رشتے عورت کے لیے صرف استحصال کا ذریعہ ہیں۔ یوں غیر مشروط خودمختاری کا خواب، ان کے لیے واحد راستہ بن جاتا ہے۔۔۔ چاہے اس کی قیمت روحانی طور پر ایک خالی پن کا احساس ہی کیوں نہ ہو۔
ہماری نسل کے کئی ذہین، حساس، باصلاحیت لڑکیاں اب رشتے جوڑنے کے بجائے 'emotional safety' کی خاطر رشتوں سے گریز کر رہی ہیں۔۔۔ مگر یہ گریز کب تک؟ اور کیا وہ جانتی ہیں کہ اس کے نقصانات کس قدر شدید ہو سکتے ہیں؟
اب شاید یہی وجوہات ہیں کہ ہمیں وہ معاشرے بہت لبھاتے ہیں، جہاں انسان صرف اور صرف اپنا ذمہ دار ہے۔۔۔ اپنے روزمرہ کے کام کاج سے لے کر بس اپنی خواہشات اور خوابوں کے لئیے جینے والے وہ لوگ، اور وہ معاشرہ ہمیں سکرین کے پار بہت بھلے، بہت آزاد، بہت خوش نظر آتے ہیں۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔ دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں جناب۔۔۔اس اسکرین کے پار عورت واقعی اپنے فیصلے خود کرتی ہے، مگر ساتھ ہی وہاں 'depression clinics' کی قطاریں، 'loneliness epidemics' اور 'relationship burnout' بھی تو ہیں۔۔۔وہاں کی عورت نے گھر سے نکل کر آزادی تو پا لی، مگر گھر جیسا پناہ گاہ کھو دی۔ اور ہم، بغیر سمجھے، صرف اس کی 'ظاہری جیت' کی پیروی کر رہے ہیں۔ (یقیناََ میں اب تک یہ سمجھانے میں کامیاب ہو چکی ہوں کہ خودمختاری بری شے نہیں مگر انتہا پر چلے جانا بہت سے مسائل کو جنم دیتا ہے)
اب ہم بات کرتے فریدت یعنی individualism کی غہر صحتمندانہ انتہا کی کچھ علامات کی، مثلاََ جذباتی خالی پن، سماجی تنہائی، انا پرستی، عدم برداشت، ذہنی دباؤ، نارسائی کے احساسات اور بے مقصدیت سرِ فہرست ہیں۔۔۔۔ خود سوچیے انسان سماج سے کٹ جائے گا تو وہ کیسے زندہ رہ پائے گا؟ وہ کیسے اپنے اُن deliverables پر کام کر پائے گا جو کہ قدرت نے اس کے ذمے لگائے ہیں۔ یہ جو ہماری نسلیں ایک ثقافتی ٹوٹ پھوٹ اک شکار ہو رہی ہیں۔۔۔۔ اس میں بہت بڑا ہاتھ "میں" ، "میرا حق" ، "میری مرضی" اور "میری زندگی میری مرضی" جیسی سوچ کا بھی ہے۔
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر کیا جائے۔۔۔ ماہم تم نے تو ایک بھیانک تصویر کھینچ دی ہے۔۔۔۔ مگر رکو یار! میں جہاں کسی مسئلے کی نشاندہی کرتی ہوں، وہاں کچھ ممکنہ حل بھی تجویز کرتی ہوں۔ سو میرے نزدیک اجتماعیت اور فردیت کا ایک صحتمندانہ توازن درج ذیل نکات پر توجہ دینے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
تربیتی عوامل: ہمیں اپنی بچیوں، نوجوان لڑکیوں اور خواتین کو emotional maturity اور emotional safety سکھائی جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ self-worth اور self-absorption میں بہت فرق ہے۔۔۔۔ خود کو جاننا بہت اہم ہے مگر 'صرف' خود کو دیکھنا ایک اندھے کنوئیں میں چھلانگ جیسا ہے۔ اس کے علاوہ رشتوں میں حدود کا مقرر کرنا بھی ایک اہم ہنر ہے (دیگر بہت سے تربیتی عناصر کا ذکر میں نے اپنے پچھلے خطوط میں کیا ہے)
خاندانی نظام کی بہتری اور بحالی: اپنے گھر کی خواتین کی قدردانی کیجے، ان کی جدوجہد کو recognise کریں اور سراہیں۔۔۔ اس طرح ہم اپنی بچیوں کو آہستہ آہستہ یہ باوور کروانے میں کامیاب ہوں گے کہ ہماری نسل نہ صرف ان مسائل کو سمجھتے ہیں بلکہ ہم ان کو بحثیتِ فرد اہمیت بھی دیتے ہیں۔ ہمیں ان کی جدوجہد میں ان کو سراہنا ہوگا اور زندگی میں ان کا ساتھ دینا ہوگا۔
بیانیے کی تبدیلی: 'میری مرضی' کو سماجی شعور، اخلاقی حدود، اور دل کی سچائی کے ساتھ توازن میں لایا جائے۔ اس کے علاوہ “میں ماں بننا چاہتی ہوں” کمزوری کی علامت نہیں، “میں اپنے شوہر کو عزت دیتی ہوں” غلامی نہیں ہے، “میں اپنے فیصلے میں گھر والوں کو شریک کرتی ہوں” بے خودی نہیں ہے، بلکہ یہ سب عقلمندی اور دل کی وسعت کی علامت ہے۔
یہ کچھ حل ہیں جو میری سمجھ میں آتے ہیں۔۔۔ اگر آپ کے ذہن میں اس کے علاوہ مزید تجاویز بھی آئیں تو کمنٹس سیکشن میں لکھ دیجے۔
ہاں جی! سب کچھ ایک دم سے تو نہیں بدلے گا۔۔۔ مگر ہمیں کوشش کرنی ہو گی، اپنی حد تک، اپنے گھر والوں، اپنی بیٹیوں، بہنوں، سہیلیوں تک۔۔۔۔ ان موضوعات پر بات کرنی ہو گی۔۔۔۔ عورت خدا کی ایک بہت پیاری مخلوق ہے۔۔۔ اور اقبال نے تو کہا تھا
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
آپ کو اپنی معراج تک خود پہنچنا ہے۔۔۔۔ اور اس معراج تک تنہا نہیں پہنچا جا سکتا۔۔۔
مکتوب کا یہ خط اگر آپ کو پسند آیا ہو تو اپنی سہیلیوں، بہنوں اور ساتھی خواتین کے ساتھ ضرور شئیر کیجے۔