اے پیاری سہیلی!
السلام علیکم
میری دعا ہے کہ یہ خط جب آپ تک پہنچے تو آپ بہترین صحت کے ساتھ ہوں۔ امید کرتی ہوں کہ آپ کے گھر میں بھی سب خیریت ہوگی۔
رمضان کا آدھا مہینہ گزر گیا۔ اگر آپ ابھی تک خیر و بھلائی کی طرف توجہ نہ دے پائی تھیں اور اس مہینے کی برکت سمیٹنے میں کوئی کمی محسوس کر رہی ہیں تو ابھی بھی وقت ہے۔ جو گزر گیا سو گزر گیا، ابھی آدھا مہینہ باقی بھی ہے۔ اللہ پاک سے ڈھیروں دعائیں مانگیں اور عبادات میں بھی نیک نیتی اور خلوص کو ملحوظِ خاطر رکھیں۔ ان شاءاللہ، ہم اپنے پیارے رب سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہماری عبادات اور کوششوں کو قبول فرمائے گا۔ آمین
مکتوب کا یہ سفر جو ہم نے اب تک طے کیا، وہ ایک مضبوط، باوقار اور خودمختار شخصیت کی بنیاد رکھتا ہے۔ پچھلے 6 خطوط کا ایک چھوٹا سا recap کر لیتے ہیں تاکہ آگے چلتے چلے جانے کے لیے ابتدائی اقدام کی سمجھ آ جائے۔
سب سے پہلے انسان اپنی قدر یا سیلف ورتھ کو پہنچاتا ہے اور اس کا فیصلہ کرتا ہے اور اس کے لیے خود شناسی انتہائی اہم ہے۔
اب خود شناسی کے لیے وقت چاہیے سو میں نے آپ کے ساتھ کچھ ٹپس شئیر کیں کہ وقت کو کیسے مینیج کیا جائے
اب وقت مینیج ہو گیا تو میں نے آپ سے بات کی کہ خود کے لیے ایک مقصد سیٹ کریں، ایسا مقصد جو زندگی کو کوئی سمت دیتا ہو، جو آپ کو دنیا و آخرت میں سرخرو کرے اور آپ کو احساس دلائے کہ آپ یونہی اس دنیا میں نہیں بھیج دیے گئے۔
اس مقصد کو سیٹ کرنے کے بعد ظاہر ہے کیونکہ آپ کو اس پر کام کرنا ہے تو اس کا پہلا قدم ہے سیکھنے کا عمل، اکثر ہم سیکھنے کے عمل میں سستی کرتے ہیں، شرم محسوس کرتے ہیں یا ہم سرے سے کوئی بڑا مقصد صرف اس لیے طے نہیں کر پاتے کیونکہ ہم اس کے متعلق کچھ جانتے نہیں، میں نے اس موڑ پر آپ کوContinuous Learning mindset کی طرف متوجہ کیا، یہ مائنڈ سیٹ آپ کو سکھاتا ہے کہ آپ اپنی آخری سانس تک سیکھ سکتے ہیں اور سیکھتے ہیں۔ ٹیکنیکلی تو ہم آخری سانس تک ہی کچھ نہ کچھ نیا سیکھ رہے ہوتے ہیں بس اس کو نام نہیں دے پاتے۔ میرا کہنا یہ تھا کہ سیکھنا صرف اتفاقی نہیں ہونا چاہیے، بلکہ شعوری اور کسی بڑے مقصد سے جُڑا ہونا چاہیے۔ یہی فرق ایک عام اور غیرمعمولی شخصیت کے درمیان لکیر کھینچتا ہے۔
اکثر Continuous Learning mindset پر دیسی سسٹم میں کچھ backlash کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یا خود ہی انسان ہار ماننے لگتا ہے، یہاں جو چیز انتہائی اہم ہے وہ Emotional Independence and Emotional Intelligence۔ جذبات انسان کا ہتھیار ہیں، ان کا عقلمندی کے ساتھ استعمال نہایت اہم ہنر ہے۔ جذبات ہمارے لیے بنے ہیں، ہمارے ہیں، ہم ان کو کنٹرول کر سکنے کی قوت رکھتے ہیں، لیکن اگر آپ جذبات کے مالک نہیں بنیں گے، تو یہ آپ کے آقا بن جائیں گے۔ پھر کبھی کوئی لفظ، کبھی کوئی رویہ، اور کبھی کوئی لمحہ آپ کی دنیا کا رُخ بدل دے گا، اور آپ صرف ردِعمل دینے پر مجبور رہیں گی۔
یہاں ایک بہت اہم بات یہ ہے کہ جب آپ اپنے جذبات پر کنٹرول سیکھ رہے ہوتے ہیں تب آپ کو بیرونی اور اندرونی مزاحمت کا شدید سامنا ہوتا ہے، ایسے میں صبر و استقامت (Patience and Resilience) انتہائی اہم صفات ہیں۔ یہ آپ کو سکھاتی ہیں کہ کیسے آپ کو تمام مشکلات کے باوجود اپنے مقصد کی جانب چلتے رہنا ہے۔
یہ وہ سفر ہے جو ہم نے اب تک طے کیا۔ یہ صرف ایک تصور نہیں، بلکہ حقیقت ہے۔۔۔ جس باوقار، حکمت سے بھرپور، اور بااعتماد عورت کو آپ نے ہمیشہ آئیڈیلائز کیا ہے، وہ کوئی اور نہیں، بلکہ آپ خود بن سکتی ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ آپ اپنی طاقت کو پہچانیں اور اس پر کام کریں۔ بس اس کے لیے خود پر ذرا کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جو کہ آپ کر سکتی ہیں۔لیکن یہ سب کچھ تبھی ممکن ہے جب آپ میں ایک چیز ہو۔۔۔ جرأت! وہ جرأت جو خوف کے باوجود آگے بڑھنا سکھائے، جو دنیا کے اصولوں کے بجائے اپنے اصولوں پر زندگی گزارنے کی ہمت دے۔ اور یہی وہ بات ہے جس پر ہم آج کے خط میں گفتگو کریں گے۔
جرت، حوصلہ اور خود اعتمادی۔۔۔۔ کسی بھی انسان کی ذات میں یہ ایسی خوبیاں ہیں جن کے بِنا زندگی کا راستہ ایک بند گلی پر جا کر رک جاتا ہے۔۔۔۔ جہاں روشنی تو نظر آ رہی ہوتی ہے مگر آگے بڑھنے کا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
زندگی میں کئی بار ایسے مواقع آتے ہیں جہاں ہمیں اپنے آپ کو اور اپنی زندگی کو own کرتے ہوئے اپنے فیصلے پر ڈٹ کر کھڑے ہونا ہوتا ہے، اپنے لیے آواز اٹھانی پڑتی ہے یا اپنا آپ منوانا پڑتا ہے۔ مگر اکثر اوقات ایسی صورتحال میں ہم ہچکچاتے ہیں۔۔۔ اگر میری بات کو رد کر دیا گیا؟ اگر میری ذات کی نفی ہو گئی؟ ہم اکثر ایسے وقت میں کسی مضبوط سہارے کی چاہت کرنے لگتے ہیں، ایسی زمین جس پر ہم پورے قد کے ساتھ کھڑے ہو سکیں، جہاں سے ہمیں توثیق ملے۔ مگر یہ جان لیں۔۔۔ وہ سہارا ہم خود ہیں اور اپنے لیے بن سکتے ہیں۔۔۔ صرف حوصلے، اعتماد اور جرت کے ساتھ۔۔۔ یہی وہ لمحات ہوتے ہیں جہاں ہماری اِن صفات کا امتحان ہوتا ہے، اور جہاں ہم انہیں ایک ہنر کی طرح سیکھ کر مزید نکھار سکتے ہیں۔
آپ کو بچپن یا نوجوانی کے وہ دن یاد ہوں گے، جب stage fear کی وجہ سے آپ کوئی پرفارمنس دیتے ہوئے گھبرا جاتی تھیں۔ ایک انجانا سا خوف ہوتا تھا۔۔۔ اگر میں ناکام ہو گئی؟ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی؟ مگر پھر ایک وقت آیا کہ ہم میں سے بہت لوگ اُس خوف سے outgrow کر گئے۔۔۔۔ آپ لوگوں میں سے اکثر لوگوں نے ہیری پوٹر دیکھی یا پڑھی ہوگی۔۔۔۔ وہ منظر جہاں ہیری کو ہاگورٹس جانے کے لیے ٹرین کی سواری کرنی تھی، اور پلیٹ فارم 9¾ پر پہنچنا تھا۔۔۔ مگر اس کے سامنے تو ایک عام سی دیوار تھی۔۔۔ مسز ویزلی نے اُسے حوصلہ دیا اور ہیری بھاگتا ہوا اس دیوار کی طرف بڑھا۔۔۔ اُس کے ذہن میں یہی خیال تھا کہ وہ دیوار سے ٹکرا جائے گا، مگر دیوار محض ایک illusion ثابت ہوئی۔۔۔۔ دیوار کے دوسری جانب ہیری کے لیے ایک نئی دنیا، ایک نئی زندگی منتظر تھی۔۔۔۔ ہمارا خوف بھی پلیٹ فارم 9¾ کی اس دیوار جیسا ہی ہوتا ہے۔۔۔ بظاہر بہت مضبوط اور ٹھوس نظر آتا ہے، گویا ٹکرائیں گے اورذات پاش پاش ہوجائے گی۔۔۔۔ مگر خوف کی یہ دیوار بھی محض ایک illusion ہے۔۔۔ اس کے دوسری جانب ہمارے لیے ایک نئی زندگی منتظر ہے۔۔۔ جرات و حوصلہ مندی کا مطلب اُس خوف کی دیوار کو سامنے دیکھتے ہوئے اس میں سے گزر جانا ہے۔
ہمارے معاشرے میں خواتین کے لیے خصوصاََ جرات دکھانا کوئی آسان کام نہیں۔ جہاں ہر بچی کی گھُٹی میں سمجھوتہ اور خاموشی پلائی جاتی ہو وہاں اپنے لیے بات کرنا طوفان کے مخالف سمت چلنے جیسا ہے۔۔۔ مگر پھر میں سوچتی ہوں کہ اگر حضرت خدیجہؓ نے جرت و حوصلہ نہ دکھایا ہوتا تو ہمارے پیارے نبیﷺ کو کون ہمت دیتا؟ اگر حضرت فاطمہؓ یا حضرت عائشہؓ اپنے موقف پر ڈٹ کر نہ کھڑی ہوتیں تو اسلام آج کہاں ہوتا؟ دیکھیے۔۔۔ معاشرے سے پہلے اپنے رب کی طرف دیکھیں۔۔۔ وہ آپ کو کہتا ہے کہ اگر آپ حق پر ہیں تو وہ آپ کا ساتھ دے گا۔۔۔ بالکل ویسے جیسے حضرت موسیٰؑ کو فرعون کے دربار میں حوصلہ دیا گیا تھا۔۔۔ اگر آپ سمجھتی ہیں کہ آپ کا موقف حق ہے تو پھر بے فکر ہو جائیں۔۔۔۔ اور کسی بھی مشکل میں سے اِس اعتماد کے ساتھ گزر جائیں کہ آپ انبیاء کی سنت پر ہیں.
اب جہاں نڈر اور بے خوف طبیعت بعض لوگوں کی ذات کا حصہ پیدائشی طور پر ہوتی ہے وہیں کچھ لوگوں کو جرأت اور خود اعتمادی اور حوصلہ مندی ایک عادت کی طرح اپنا کر سیکھنی پڑتی ہے۔ جب بھی آپ کو self-doubt گھیرنے لگے اور خوف آپ کے سامنے آ کھڑا ہو تو خود کو ان باتوں کی یقین دہانی کروائیں:
اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کافی نہیں، تو یاد رکھیں اللہ نے آپ کو بہترین بنایا ہے۔
اگر آپ کو لگتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے، تو یاد رکھیں لوگ تو ہر حال میں کچھ نہ کچھ کہتے ہی رہتے ہیں۔
اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ ناکام ہو جائیں گی، تو یاد رکھیں ناکامی ایک موقع ہے، منزل نہیں۔
آپ کا وجود، آپ کی آواز، اور آپ کا خواب اہم ہے۔ اپنی قدر پہچانیں، اپنے اندر کی روشنی کو مانند نہ پڑنے دیں، اور سب سے بڑھ کر، اپنے آپ پر یقین رکھیں۔ کیونکہ اگر آپ خود پر یقین نہیں کریں گی، تو دنیا بھی آپ پر یقین نہیں کرے گی۔
چلیں جی یہ تو ہوگئی جرت و حوصلہ مندی کی بات۔۔۔ اب میں آپ کو بتاتی چلوں کہ ہماری ایک بہت ہی پیاری سی ساتھی مہرین فرحان نے لکھے ہیں "احمد کے نام خطوط"۔ یہ پانچ خطوط کا ایک سلسلہ ہے جو کہ رحمت العالمینؐ کے شہر مدینہ منورہ سے ایک ماں اپنے بیٹے "احمد" کے نام لکھ رہی ہے۔ یہ خطوط مہرین کے رمضان 2025 سیریز کا حصہ ہیں۔ پہلے دو خطوط کے لنک نیچے دیے گئے ہیں۔ دل کو چھو لینے والے یہ خطوط روح کو یہ باور کروا دیتے ہیں کہ ہم نہ جانتے ہوئے بھی اپنے پیارے نبی حضرت محمدﷺ سے کتنی محبت اور عقیدت رکھتے ہیں۔ ان خطوط کو سنیے اور اپنی رائے کا اظہار کیجے۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک خوشخبری۔۔۔ مکتوب کا سفر انسٹاگرام پر ایک نئے انداز میں شروع ہونے والا ہے۔۔۔ آپ کا ساتھ میرے لیے قابلِ فخر ہوگا۔ نیچے دیے گئے لنک سے مکتوب انسٹا کو فالو کریں۔
اگر آپ کو یہ خط پسند آیا ہو تو مجھے جوابی خط میں ضرور بتایے گا۔ آپ کی رائے اور تجاویز میرے لیے بہت اہم ہیں۔اس خط کو اپنی ساتھی سہیلیوں اور بہنوں کے ساتھ لازمی شیر کریں۔
اللہ تعلٰی اور بھی حوصلہ عطاء کرے