اے پیاری دوست!
السلام علیکم!
امید کرتی ہوں کہ آپ کے خیریت سے ہوں گی اور آپ کے من کا موسم پرسکون ہوگا۔
آج سے قریباََ تین سال پہلے کی بات ہے کہ میں نے پی پی ایس سی کے تحت گریڈ 17 کے لیے ہونے والے امتحانوں کے لیے اپلائے کیا۔ میں چونکہ تین مختلف مضامین کے لیے اہل تھی سو تینوں کے لیے اپلائے کر دیا اور جی جان سے تیاری شروع کر دی۔ کوئی سات سالوں کے بعد کتابوں کو ہاتھ لگایا تھا۔۔۔ ایک بڑا چیلنج تھا سامنے۔ مگر میں تو پھر میں ہوں نا۔۔۔ ہار ماننے والے تو ہم ہیں نہیں۔ سو پورا ایک سال لگا کر خوب پڑھائی کی، تمام امتحانات شاندار نمبروں سے پاس کیے، انٹرویو تک کوالیفائے بھی کیا
مگر پتا ہے میں نے کہاں جا کر مات کھائی؟
انٹرویو کا پہلا سوال تھا: "سب سے پہلے اِن آٹھ سالوں کا حساب دیں نا ذرا؟"
سوال کم فیصلہ زیادہ تھا۔ اُن کے انداز سے نمایاں تھا کہ وہ ایک ایسی امیدوار کو سنجیدگی سے لے ہی نہیں رہے جس کے کریئر میں شادی اور بچوں کی وجہ سے 8 سال کا وقفہ آ گیا ہو۔۔۔
اِس ایک جملے نے مجھے اندر سے توڑ دیا۔۔۔ میں ہمیشہ سوچتی رہی کہ کمی کہاں رہ گئی؟ میں ایسا کیا کرتی کہ مجھے سنجیدگی سے لیا جاتا؟ کیا شادی اور بچوں کا ٹیگ ایک عورت، ایک لڑکی کو اتنا ہی کمزور ظاہر کرتا ہے؟ کہ وہ کسی بڑے مقصد کے لیے نااہل سمجھی جانے لگے؟ جذباتی طور پر میں اس سب سے بہت متاثر ہوئی تھی۔ ایک سال میں میں نے آٹھ سال کا وقفہ مٹانے کی کوشش کی، مگر نہیں ہو سکا۔۔۔ میں خود سے یہ ٹیگ نہیں ہٹا سکی کہ چونکہ اب میں ایک ماں ہوں اور ایک بیوی ہوں تو اب میں اور کسی بڑے مقصد کے لائق نہیں رہ گئی۔۔۔۔ وہ ایک تاریک وقت تھا۔۔۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ایسا کیوں ہوا۔
پر ایک بات بتاؤں کیا۔۔۔ جب میں نے مڑ کر معاشرے کی طرف دیکھا تو مجھے پتا چلا کہ لوگ ہمیں جو غیر سنجیدہ لیتے ہیں تو کچھ ایسا غلط بھی نہیں۔ عمومی طور پر ہمارے معاشرے کی عورت نے شادی اور بالخصوص بچوں کی پیدائش کے بعد زندگی کو خود پر ختم کر لیا ہے۔ وہ آگے بڑھنے، نیا سیکھنے اور بامقصد اہداف کے تعین سے بیزار ہو چکی ہے۔
وجوہات کئی ہیں، لیکن ایک بڑی وجہ "مائنڈسیٹ" ہے۔ ہم ذمہ داریوں میں الجھ کر غیر ضروری توقعات پوری کرنے میں الجھ گئی ہیں۔ اور اسی چیز نے ہماری انفرادیت کو ختم کر دیا ہے۔ ہمیں ہمارے "اصل" سے دور کر دیا ہے۔ غور کیجے گا، کیا آپ، آپ ہی ہیں؟ یا وہ بن گئی ہیں جو آپ کے ماحول نے آپ سے توقع کیا؟ وقت اور ضرورت کے مطابق خود میں لچک پیدا کرنا ایک بہت اچھی خوبی ہے، مگر ہم خواتین یہ ہنر نہیں جانتیں۔ ہم خود کو مکمل قربان کر دیتی ہیں یوں کہ ہمیں لگتا ہی نہیں کہ ہمارا بھی کوئی خواب کوئی مقصد ہو سکتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے سمجھوتے کرتے کرتے ہم ایک دن جاگتی ہیں اور دیکھتی ہیں کہ ہمارے ہاتھ خالی ہیں۔ اور بالفرض اگر کسی لڑکی نے اپنے خواب، اپنے مقاصد، اپنا کرئیر زندہ رکھنے کی کوشش کی بھی ہو تو اُس سے معاشرہ ایسی ایسی توقعات لگا لیتا ہے کہ زندگی اُس کے لیے بیگارِ مسلسل بن جاتی ہے۔
میں جب آپ سے کہتی ہوں کہ اپنی قدر پہچانیں، تو اس کا مطلب یہی ہے۔ سب سے پہلے، اپنی “سیلف ورتھ” کو سمجھیں۔ آپ کی سیلف ورتھ آپ کو باور کروائے گی کہ آپ کس راستے پر کس انداز میں چل سکتی ہیں۔ خود شناسی آپ کو آپ سے متعارف کروائے گی۔ یہ تعارف آپ کو آپ کی صلاحیتیں پہنچانے میں مدد دے گا۔ وہ صلاحیتیں جو آپ کو اس لیے دی گئی تھیں تاکہ آپ "وقت" پر اپنا مثبت نشان چھوڑ سکیں۔
اس لیے اپنے لیے ایسے مقاصد طے کریں جو گھر اور بچوں سے ہٹ کر ہوں، جو دنیا میں مثبت تبدیلی لا سکیں، جو آپ کی شناخت کے مطابق ہوں، جو آپ کو مضبوط اور مستحکم بنائیں۔
اب میں آپ سے ایک اور بات کرتی ہوں۔ زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب ہمیں اپنی اولاد کو آزاد چھوڑنا ہوتا ہے۔ وہ وقت ہم عورتوں کے لیے سب سے مشکل ہوتا ہے، کیونکہ ہم نے اپنی پوری زندگی بچوں کے گرد بنا رکھی ہوتی ہے۔ اور جب وہ ہم پر منحصر نہیں رہتے تو ہمیں لگتا ہے کہ ہم بے کار ہو گئی ہیں۔آپ کو پتا ہے آپ کے یہ مقاصد آپ کو تنہائی سے بچائیں گے۔ ہم عورتیں جذباتی طور پر دوسروں پر اتنا انحصار کر لیتی ہیں کہ جب وہ اپنی زندگی میں مصروف ہوتے ہیں، تو ہم بکھر جاتی ہیں۔ یہ احساس عموماً خواتین کو منفی بنا دیتا ہے۔ وہ اپنی زندگی میں موجود لوگوں کے لیے مسائل کا باعث بننے لگتی ہیں۔
لیکن اگر آپ کی اپنی بھی ایک دنیا ہو، ایک مقصد ہو، تو آپ جذباتی طور پر اتنی مضبوط ہوں گی کہ زندگی کے ہر مرحلے کو عزت اور اعتماد کے ساتھ گزار سکیں۔ اگر ہم عورتیں اپنے لیے مقصد کا تعین کریں گی تو ہم وقت کے ساتھ ترقی کریں گی، ہمیں کبھی بھی نئے وقت اور دور میں اپنا آپ بے جوڑ محسوس نہیں ہوگا، بلکہ بحیثیت بزرگ اس وقت ہم اپنی آنے والی نسلوں کے زیادہ مددگار ہو سکتے ہیں اور ان کی زندگی میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب ہم خود بھی وقت کے ساتھ ساتھ سیکھ رہی ہوں اور ہمارے پاس موجودہ دور کا علم ہو۔ تبھی ہم اپنے علم اور تجربے کا نچوڑ اپنی نسل کو دے کر ان کی مدد کر سکتے ہیں اور وہ بھی ہم سے ایسی صورت میں زیادہ بہتر انداز میں جڑ سکیں گے۔
بامقصد اہداف انسان کو مایوسی اور احساسِ محرومی سے بچاتے ہیں۔ اور سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ اگر ہم جذباتی طور پر خودمختار ہوں گی، تو ہماری اگلی نسل بھی اس جذباتی انحصار کے جال سے آزاد ہوگی۔ جب وہ اپنی زندگی کے فیصلے لیں گے، تو انہیں یہ خوف نہیں ہوگا کہ والدین پیچھے رہ جائیں گے، کیونکہ انہیں معلوم ہوگا کہ ان کے والدین ان کی خوشی اور ترقی کے محتاج نہیں ہیں، بلکہ ان کی اپنی ایک مکمل اور بھرپور زندگی ہے۔
یہی وہ آزادی ہے جو ہمیں خود کو دینی چاہیے، تاکہ ہم اپنے بچوں کو بھی آزاد کر سکیں۔ اور یہی وہ لمحہ ہے جہاں ہم اپنی نسلوں کو بدلنے کی طاقت رکھتی ہیں۔
تو، فیصلہ آج کریں: اپنے لیے، اپنی خوشی کے لیے، اور اپنی آنے والی نسلوں کی بھلائی کے لیے۔
آنے والے خطوط میں ہم بامقصد اہداف کے تعین سے متعلق عملی اقدامات پر بات کریں گے۔ اگر آپ کے پاس اس بارے کچھ مشورے ہوں تو میرے ساتھ ضرور شئیر کریں۔ اور ہاں مکتوب کی جانب سے پچھلے خط میں دیا گیا free resource استعمال کیا ہو تو لازمی بتایے گا کہ کیا نتائج رہے؟
اگر خط اچھا لگا ہو تو اپنی سہیلیوں اور بہنوں کے ساتھ ضرور شئیر کریں۔ اور اگر آپ اسی خط میں سے کسی موضوع پر مزید گہرائی سے بات کرنا چاہتی ہیں تو مجھے جوابی خط لکھ بھیجیے۔
🌸