اے پیاری دوست!
السلام علیکم!
امید کرتی ہوں کہ آپ خیریت سے ہوں گی اور آپ کا مَن اطمینان و سکون کی ٹھنڈی چھاؤں میں ہوگا۔ ہمارے ہاں بھی سب امن چین ہے الحمدللہ۔
پچھلے ہفتے خط کا ناغہ ہو گیا۔۔۔ وجہ بہت صاف اور سادہ سی ہے۔۔۔ وہ تمام کام جو "عید کے بعد دیکھیں گے" پر چھوڑے ہوئے تھے، چھلاؤوں کی طرح سامنے آن کھڑے ہوئے۔۔۔ ابھی بھی مطلع ابر آلود ہی ہے مگر طوفان کا زور ٹوٹ چکا ہے۔
جب بیٹھ کراِن سب کاموں کو ، ایک لسٹ بنا کر دیکھا تو سمجھ آیا ان میں سے بیشتر کام میرے اپنی ہی کج فہمی کا نتیجہ ہیں۔۔۔
آپ یقیناََ اس بات کو سمجھتی ہیں کہ بات "کام" کے "کرنے" کی نہیں ہوتی۔۔۔ بات کمٹمنٹ کی یا ذمہ داری کی ہوتی ہے۔ اور یہ چھوٹی چھوٹی ذمہ داریاں مل کر ایک بڑا بوجھ بن جاتی ہیں۔۔۔ وہ بوجھ جو ہماری کمر پر نہیں بلکہ ہمارے دماغ پر ہوتا ہے۔۔۔ اور دماغ پر یہ بوجھ خاصے مسائل کا باعث بن جاتا ہے کبھی کبھار۔
اب دقت کی بات یہ ہے کہ یہ سب کیسے مینیج کیا جائے۔ ایک چیز ہے "نہ" کہنا۔۔۔ یعنی ایسی ہر چیز جو کہ آپ پر اضافی بوجھ ڈال رہی ہے اور آپ کی حقیقی ذمہ داریوں میں سے بھی نہیں ہے تو اس سے مناسب انداز میں انکار کرنا۔ ایک ایسا کام جو کہ خود میرے لیے بھی اچھا خاصا مشکل ہے، مگر کیا کریں۔۔۔ کرنا تو ہے۔ کیونکہ یہ انتہائی اہم ہے ہماری جسمانی اور ذہنی صحت کے لئیے۔ بلکہ آپ سمجھیے تو یہ رشتوں کو برقرار رکھنے میں بھی ایک بنیادی کردار ادا کر سکتا ہے۔ وگرنہ ہمارے ارد گرد موجود لوگوں کی ہم سے بے وجہ کی توقعات ہمیں اُن سے دور کرتی چلی جائیں گی اور ایسے تمام رشتے ہم پر بوجھ بننے لگیں گے۔ اصل نکتہ یہاں یہ ہے کہ ہم باؤنڈریز سیٹ کریں۔۔۔ باؤنڈریز سیٹ کرنا بالکل بھی برا نہیں ہے۔ بلکہ یہ آپ کی جانب سے آپ کے ارد گرد موجود لوگوں کو ایک اشارہ ہے کہ آپ کی برداشت اور ہمت کی حد کہاں تک ہے۔ یوں کوئی دوسرا آپ سے بلا وجہ کی توقع نہیں جوڑتا اور آپ پر اتنا ہی بوجھ ڈالا جاتا ہے جتنا آپ سہہ سکیں۔ دوسری جانب خود آپ بھی شعوری طور پر یہ بات سمجھ پاتیں ہیں کہ کون سے رشتے ناتے صرف اس وجہ سے قائم ہیں کہ وہ آپ کو اپنا بوجھ ڈھونے کے لیے استعمال کر سکیں اور کون سے رشتے حقیقی انداز میں آپ کے ساتھ تعلق رکھنا چاہتے ہیں۔ باؤنڈریز سیٹ کر کے آپ خود اپنی ذات کو ایک پہچان دیتی ہیں۔ اور یہ پہچان آپ کی شناخت بنتی ہے۔۔۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں وہ شناخت تو بہت کھلے دل کے ساتھ قبول کی جاتی ہے جو دوسروں کو بےجا کمفرٹیبل کر دے چاہے خود انسان اس سارے عمل میں روندا جائے مگر ہمارے اس معاشرے میں وہ شناخت جہاں انسان اپنی ذات کی بہبود کو فوقیت دے رہا ہو اُسے خاصا معیوب جانا جاتا ہے۔۔۔ خصوصاََ خواتین کے کیس میں۔
مگر میرا خیال ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم یہ بات بھی سمجھ جائیں کہ اِس سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہمیں کون قبول کر رہا ہے اور کون نہیں۔۔۔ اگر آپ اپنی بن جائیں گی تو وقت کے ساتھ ساتھ آپ کو خود بخود ایسے مخلص لوگوں کا ساتھ ملتا چلا جائے گا جو کہ آپ کی نمو اور ذاتی بہبود کو سپورٹ کرتے ہوں گے۔۔۔ سو تنہا ہو جانے کے ڈر کے ساتھ کبھی بھی اپنی عزتِ نفس کا سودا نہ کیجے گا۔ کبھی کبھار دل کے باہر "نو اینٹری" کا بورڈ لگا دینا کوئی معیوب عمل نہیں۔۔۔۔ مجھے یاد ہے ایک بار ایک ڈاکٹر نے مجھے یہ بات بہت عام سی مثال کے ساتھ سمجھائی تھی۔۔۔ باؤئنڈریز دیوار نہیں، دروازے کی طرح ہے۔۔۔ آپ نے ایک خوبصورت سا گھر سجایا ہو سنوارا ہو تو آپ اُس کا دروازہ ہر شخص کے لئیے کھلا نہیں چھوڑ دیتیں۔۔۔ بلکہ بہت دیکھ بھال کر اجازت دیتی ہیں۔۔۔ تاکہ آپ کا گھر سلامت رہے۔۔۔۔ یہی باؤنڈریز کا کام ہے۔۔۔ آپ کی ذہنی صحت کو بچانا۔۔۔ سو اب سے اس بات کو سوچیے اور "نہ" کہنے کی پریکٹس کیجے۔۔۔ اور ہاں ایک بات اور۔۔۔ باؤنڈریز سیٹ کرنا یا "نہ" کہنا ہرگز کسی کی ذات کو رد کرنا نہیں ہے۔۔۔ آپ انتہائی نرمی سے مناسب انداز میں اپنا پیغام دوسرے تک پہنچا سکتی ہیں۔۔۔ آپ کی ذمہ داری یہیں تک ہے۔۔۔ اس سے آگے کوئی کیا سوچتا ہے، کیا کہتا ہے یہ اُس کی صوابدید۔۔۔۔
اگر آپ واضح باؤنڈریز سیٹ نہیں کرتیں یا اُن پر سمجھوتہ کرتی چلی جاتی ہیں تو یاد رکھیے یہ آپ کو جذباتی طور پر تھکا دے گا۔ آپ اپنی زندگی میں ایک بےمقصدیت سی محسوس کریں گی۔ "ہاں" کہتے چلے جانے کے چکر میں "برن آؤٹ" سے دوچار ہوں گی۔ دل کے اندر ہی اندر غصہ اور بےبسی پلنے لگے گی جو کہ آپ کی خودی کو بھی متاثر کرے گی۔ سو آہستہ آہستہ اپنے رشتوں ناطوں میں باؤنڈریز نہ صرف خود وضع کریں بلکہ اپنے گھر والوں کو بھی اس کی اہمیت کے متعلق بتائیں۔ بتائیں کہ کیسے یہ صحت مند رشتوں اور خاندانوں کی بنیاد بنتی ہیں اور کیسے کسی بھی شخص کی انفرادیت کی بقا کے لیے یہ اہم ہے۔
امید کرتی ہوں کہ آپ اس موضوع پر نہ صرف سوچیں گی بلکہ ریسرچ کرنے کے بعد عمل بھی کریں گی۔ یہ صرف کہنے کی باتیں نہیں ہیں۔۔۔۔ اب پر عمل درآمد ایک مضبوط شخصیت کی ضمانت ہے۔۔۔ ایک ایسی مضبوط شخصیت جس نے مستقبل کی نسلوں کی تربیت کرنی ہے۔
اور ہاں۔۔ ایک بات بتانا تو بھول ہی چلی تھی۔۔۔ میں فِکشن بھی لکھتی ہوں۔ اگر آپ میری لکھی کہانی پڑھنا چاہیں تو درج ذیل لنک پر کلک کریں۔ اور کہانی پڑھنے کے بعد رائے دینے میں کنجوسی سے کام مت لیجے گا۔۔۔ :)
ان شاء اللہ اگلے ہفتے پھر سے کسی نئے موضوع کے ساتھ حاضر ہوں گی۔ اگر آپ اس مضوع پر بات کرنا چاہیں یا اپنی ذاتی کہانی یا دل کی بات میرے ساتھ شئیر کرنا چاہیں تو جوابی خط لکھنا مت بھولیے گا۔
اس خط کو اپنی سکھیوں، سہیلیوں اور بہنوں کے ساتھ شئیر کریں۔
W.salam maham
ماہم آپ کو پڑھ کر بہت اچھا لگا۔ یہ اک انجان دنیا لگ رہی تھی مجھے مگر آپ کا یہ خط پڑھ کر اک دم سے اپنائیت کا احساس ہوا۔
آتے ہیں آپ کے خط کی طرف ۔ بہت کمال لکھا ہے ۔
ہمارے ہاں جہاں مشترکہ خاندانی نظام اک نعمت سمجھا جاتا ہے وہیں آج کے دور میں اس کی بہت سی قباحتیں بھی سامنے آ رہی ہیں ۔ people pleasing پرائیویسی بریچ اور
یہ کسی حد تک اسی نظام کی دین ہیں۔ اور پھر
یہاں اس نظام میں باؤنڈری سیٹ کرنا، مطلب بہت سوں کو ناراض کرنا جیسا آپ نے بھی کہا ۔ اور پتا ہے سب سے برا کیا ہے ہم عورتیں ہی اس نظام کو چلانے والی ہیں۔ ہاں تب تکلیف بہت زیادہ ہوتی ہے جب آپ کو اک دوسری عورت ہی نہ سمجھے۔
ہو سکتا ہے میں غلط ہوں مگر مجھے لگتا ہے کہ اگر عورتیں ہی اک دوسرے کا سہارا بن جائیں تو ہم اک بہتر معاشرہ بنا سکتے ہیں۔
بحرحال آپ کی باتوں سے انکار کی گنجائش بنتی نہیں ہے سو میں متفق ہوں ۔ کیوں کہ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا تو پڑتا ہے۔