اے پیاری دوست
السلام علیکم!
امید کرتی ہوں کہ آپ خیریت سے ہوں گی۔ رمضان کا آخری عشرہ شروع ہو چکا ہے۔ یقیناََ آپ سب بھی بقیناََ مبارک دنوں کے لیے بہترین اندازمیں، نیک نیتی کے ساتھ عبادات میں مشغول ہوں گی۔
اِن آخری دنوں میں دل کھول کر دعائیں مانگیے اور عبادات کیجیے۔ کون جانتا ہے کہ اِس کے بعد ہمیں ایسا موقع دوبارہ ملے یا نہیں۔ اِس آخری عشرے میں شبِ قدر کی تلاش کے لیے اپنی راتوں میں قیام کا اہتمام کریں۔ لازم نہیں کے پوری رات جاگیں۔ مگر جتنا وقت جاگیں کوشش کریں کہ غیر ضروری کاموں اور مصروفیات کی بجائے دعا میں وقت صرف ہو۔ اپنے اور اپنے گھر والوں کے ساتھ ساتھ باقی تمام مسلمان بہن و بھائیوں کو بھی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ خصوصاََ وہ جو ظلم و جبر کے خلاف آج بھی کلمہ حق کا نعرہ بلند کرتے ہیں اور سینہ تان کر کھڑے ہیں۔ اللہ پاک ہم سب پر اپنی رحمت کا سایہ قائم رکھے۔ آمین۔
آج آپ سے گپ شپ کا دن ہے سو سب مصروفیات چھوڑ کر خط لکھنے بیٹھی ہوں۔ ویسے تو رمضان بہت ہی اچھے موسم میں شروع ہوا تھا اس بار مگر اب ذرا ہوا میں تبدیلی محسوس ہو رہی ہے۔ ذرا کیا، اچھی خاصی تبدیلی۔۔۔ گرما کی آمد آمد ہے۔۔۔ یہاں پنجاب میں تو بھئی پنکھے بھی چل پڑے ہیں اور ٹھنڈا ٹھار شربت پینے کا جی چاہتا ہے افطاری میں۔ اسی سب میں ہمیں نئے مسائل بھی درپیش ہیں۔۔۔ سردیوں کا "مال" سمیٹا جائے اور گرمیوں کا نکالا جائے۔ عجیب صورتحال چل رہی۔۔۔ کیونکہ پتا بھی نہیں نا چلتا کہ ہم سب سمیٹ کر بکسوں اور پیٹیوں کے سپرد کر دیں اور سردی جاتے جاتے مڑ کر گھور کر دیکھ لے۔۔۔ پھر ہم سب کے گھر میں کوئی نہ کوئی ایک نازک مزاج شخصیت ایسی ضرور ہوتی ہے جسے سردی لگ جانے کا ڈر سب سے زیادہ ہوتا۔۔۔ عجب کشمکش ہے۔
یہی سب کرتے کراتے آج میں سوچنے لگی کہ یہ کتنے چھوٹے چھوٹے فیصلے ہیں نا۔ اور بعض اوقات یہ ہی اتنا تھکا دیتے ہیں۔ مگر کیوں؟ آج کیا پکائیں؟ کیا چیز کہاں رکھیں؟ کون سے کپڑے رکھ دیں، کون سے پہن لیں، کون سا جوڑا خرید لیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔ کیوں یہ سب اتنا مشکل لگنے لگتا ہے؟ شاید اس لیے کیونکہ ہم نتائج کی ذمہ داری نہیں لینا چاہتے۔ نتائج جو کہ اچھے ہوں تو واہ واہ ہو جاتی ہے، لیکن اگر برے ہوں تو بہت کچھ سہنا پڑتا۔ مگر پھر میں یہی سوچنے لگی کہ تو کیا ہوا؟ شاید لوگ ہمیں انسان نہ سمجھتے ہوں مگر ہم خود تو جانتے ہیں نا کہ ہم انسان ہی ہیں۔ اور غلطی انسان سے ہو ہی جاتی ہے۔۔۔اور جب تک ہم خود یہ نہیں مانیں گے، تب تک کوئی اور بھی نہیں مانے گا۔۔۔ مگر یہ بات بھی نہیں ہے۔ بات اعتماد کی کمی کی ہے۔ ہم خود انحصاری نہیں جانتے۔ ہم فیصلہ سازی نہیں جانتے۔ فیصلہ سازی سے متعلق ایک تفصیلی آرٹیکل میں نے یہاں پوسٹ کیا ہے۔ اس میں فیصلہ سازی جیسے اہم ہنر کے نہ ہونے کے المیے سے متعلق ہر انداز میں بات کی گئی ہے۔ کیسے بچپن سے ہی ہمیں چھوٹے چھوٹے فیصلے کرنے سے محروم کر دیا جاتا ہے، اور کیسے پھر بڑھاپے تک ہم کسی بھی پیچدہ مسئلے میں خود پر انحصار اور اعتماد کر کے فیصلہ لے لینے کی بجائے دوسروں کی جانب دیکھتے ہیں۔
ہمارے دیسی سسٹم میں فیصلہ سازی اور خود انحصاری سرے سے سکھائی ہی نہیں جاتی۔ حالانکہ یہ دو ایسی صفات ہیں جو کہ قدرت نے ہمارے اندر پہلے سے رکھی ہوئی ہیں۔ کبھی بچوں کو غور سے دیکھیں وہ چھوٹے چھوٹے فیصلہ لینا چاہتے ہیں، یہ نہیں پہننا یہ پہننا ہے، یہ نہیں کھانا یہ کھانا ہے۔ ایسے مواقع ہمیں کئی بار میسر آتے ہیں جب ہم ان کے اندر موجود اسی صفت کو نکھار سکتے ہیں۔ ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ انہیں سکھا سکتے ہیں کہ فیصلہ کیسے لیے جاتا ہے، اس اعتماد کے ساتھ کے نتائج بھی میرے اپنے ہیں۔ اور ہر لمحہ میری زندگی میں سیکھنے کا ایک نیا مرحلہ ہے۔ مگر شاید ہم "لوگ کیا کہیں گے" کی بلا سے ڈرتے ہیں، اور جس طرح ہمارے بڑوں نے ہمیں اِس بھوت سے ڈرایا ہم بھی اپنے بچوں کو اس بھوت سے ڈراتے رہتے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی کئی وجوہات ہیں۔ مثلاََ ہمارا، نتائج کی پروا کیے بغیر، اپنے ارد گرد موجود لوگوں کی حوصلہ افزائی نہ کرنا، ان کا ساتھ نہ دینا۔ خود سوچیے، زندگی جس کو ملی ہے، فیصلہ بھی اسی کا ہونا چاہیے نا۔ ہم اگر خیر خواہی اور بھلائی چاہتے ہیں تو مناسب انداز میں مشورہ دیں اور اس کے بعد اپنے ساتھ کا یقین دلا دیں بس۔ کیوں ہمارے ہاں دوسروں کی زندگیاں بھی خود جینے کی بھوک ہے؟ اور یہ بھوک کیسے ختم ہوگی؟ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے؟
کیسے ہم باوقار اور پر اعتماد بن سکتے ہیں، ایک مضبوط شخصیت کے حامل ہو سکتے ہیں جب تک ہم یہ چھوٹے چھوٹے ہنر نہ سیکھ لیں۔ اگر آپ چاہتی ہیں کہ آپ زندگی میں کامیاب ہو سکیں اور آخرت میں سرخرو ہو سکیں تو سمجھیے اس بات کو: آپ کو اپنے فیصلے خود لینا ہوں گے، اپنے اوپر اعتماد اور انحصار کے ساتھ۔ کچھ مددگار ٹپس اس حوالے سے درج ذیل ہیں:
خود پر یقین پیدا کریں – فیصلہ کرنے سے پہلے ہی اگر ہمیں خود پر اعتماد نہ ہو تو کوئی بھی فیصلہ ٹھیک محسوس نہیں ہوگا۔ خود پر بھروسہ کرنے کا مطلب ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں کو پہچانیں اور ان کا استعمال کریں۔
سوچنے کی عادت ڈالیں – کسی بھی فیصلے سے پہلے خود سے سوال کریں: "کیا یہ میرے حق میں بہتر ہے؟" "کیا میں اس کے نتائج کے لیے تیار ہوں؟" "کیا یہ فیصلہ میری اقدار اور خوابوں کے مطابق ہے؟"
خود مختاری اور ضد میں فرق سمجھیں – خود انحصاری کا یہ مطلب نہیں کہ ہم دوسروں کی بات کو نظر انداز کریں یا ہر وقت اپنی ہی چلائیں۔ دانشمندی یہی ہے کہ ہم دوسروں کی رائے سنیں، لیکن فیصلہ اپنا کریں۔
اپنے فیصلوں کے نتائج قبول کریں – جب ہم خود انحصاری کی راہ پر چلتے ہیں، تو ہمیں اپنی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ اپنی غلطیوں کو بھی تسلیم کرنا سیکھنا ہوگا۔ غلطیاں ہمیں سیکھنے کا موقع دیتی ہیں، نہ کہ ہمیں کمزور کرتی ہیں۔
مثبت مثالوں سے سیکھیں – تاریخ میں ایسی بے شمار خواتین اور مردوں کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے خود انحصاری کے ساتھ فیصلے کیے اور دنیا میں اپنا مقام بنایا۔ حضرت خدیجہؓ کی کاروباری ذہانت، فاطمہ جناح کی جدوجہد، اور ارفع کریم کی ہمت—یہ سب ہمیں سکھاتی ہیں کہ خود انحصاری کیسے زندگی بدل سکتی ہے۔
زندگی کا سب سے خوبصورت رنگ یہی ہے کہ ہم اپنی زندگی کو خود جینا شروع کر دیں۔ اس شعور کے ساتھ کہ یہ ایک تحفہ، ایک نعمت ہے۔ لوگ باتیں کریں۔۔۔ اُن سے گھبرایے گا نہیں۔۔۔ کیونکہ آپ اپنی زندگی کی معمار خود ہیں۔
اس امید کے ساتھ اجازت چاہوں گی کہ آپ کو یہ خط اور یہ موضوع پسند آیا ہوگا۔ آپ کے جوابی خطوط کا بہت بہت شکریہ۔ آپ کی فیڈ بیک میرے لیے بہت اہم ہے۔ موضوع سے متعلق اظہارِ رائے کے لیے جوابی خط لکھنا نہ بھولیے گا۔ مجھے انتظار رہے گا۔
مکتوب کے اس شمارے کو اپنی ان سہیلیوں اور بہنوں کے ساتھ شئیر کریں جن کے ساتھ آپ بہتری کا یہ سفر بانٹنا چاہتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کی اس بابرکت مہینے کی تمام عبادات کو قبول فرمائے اور زندگی کے ہر موڑ پر آپ خود پر بھروسہ کرنے کی ہمت پائیں اور آپ کو وہ حوصلہ اور ہمت دے کہ آپ زندگی کو خود جی سکیں۔۔۔
والسلام
ماہم
“احمد کے نام خطوط” کا سلسلہ اختتام پزیر ہو چکا ہے۔ پانچ خطوط کا انتہائی خوبصورت سلسلہ ہماری پیاری مہرین کے قلم کا کمال ہے۔ درج ذیل لنک کے ذریعے آپ تمام خطوط تک رسائی حاصل کر سکتی ہیں۔ یہ خطوط ایک ماں نے، مدینہ منورہ کے بابرکت شہر سے، اپنے بیٹے کے نام لکھے ہیں۔ ان، جذبات کو چھلکا دینے والے خطوط سے متعلق اپنی اراء اور اپنے مدینہ منورہ میں گزرے وقت کو ہمارے ساتھ ضرور شئیر کیجے گا۔
السلام علیکم
ماہم آپی میں آپ کی بات سے بالکل متفق ہوں آپ نے بہت خوبصورتی سے یہ موضوع تحریر کیا ہے، ہم انسان زندگی میں بہت سی چیزیں حاصل کر لیتے ہیں، اگر نہیں کر پاتے، تو وہ خود اعتمادی ہے، اور اس میں کہیں نہ کہیں ہاتھ ہمارے بڑوں کا بھی ہے، وہ بلاشبہ ہمیں غلط اور صحیح میں فرق کرنا سکھاتے ہیں، مگر ہمیں خود اعتماد نہیں بننے دیتے، ہم ان پر بچپن سے ہی اس قدر منحصر ہو چکے ہوتے ہیں کہ اپنی زندگی کا کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے ان کی اجازت لینی پڑتی ہے یہی وجہ ہے کہ اکثر ہمارے فیصلوں کے نتائج ہمارے سامنے مشکل کی صورت میں پیش آتے ہیں اور ہم خود مختار اور خود اعتماد نہیں رہتے