اے پیاری سہیلی!
السلام علیکم!
امید کرتی ہوں کہ آپ خیریت سے ہوں گی اور آپ کا گھر اللہ پاک کی نعمتوں اور رحمتوں کے سائے میں ہوگا۔
یہ خط میں پبلش ہونے کے وقت اور دن سے کئی دن پہلے لکھ رہی ہوں، وجہ؟ وجہ ہے یہ موضوع۔۔۔ گزشتہ کچھ دنوں میں نظر سے کئی ایسی چیزیں گزریں کہ میں اس موضوع کے متعلق سوچنے پر مجبور ہوگئی۔
ہاں میں جانتی ہوں۔۔۔ یہ ایک انتہائی تکیلف دہ موضوع ہے۔۔۔ محبت جیسا پاک جذبہ جو انسان اور انسانیت کی معراج ہے۔۔۔ کیسے لوگوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنا دیتا ہے۔۔۔ جب مشروط ہو۔۔۔۔ محبت، جسے کہ بےلوث ہونا چاہئیے کیسے بعض اوقات شرائط میں لپٹی ہوئی ایک سودے بازی کے سوا اور کچھ نہیں رہ جاتی۔
ہمارے ارد گرد ایسی کئی مثالیں ہوتی ہیں۔۔۔ کڑوی بات کہوں گی، مگر سچ ہے، عموماََ تو ہمارے اپنے گھروں میں، اپنے خاندانوں میں مشروط محبتوں کی مثالیں سانس لیتی ہیں۔۔۔ اور مرد و زن اس سے یکسر متاثر ہیں۔
مثال کے طور پر اگر اولاد بات مانے گی تو ہم اسے محبت دیں گے، پیار و عزت دیں گے، لیکن اگر اُس نے اپنی منشا سے کچھ کہہ دیا یا کر لیا تو ہم نے اُس سے محبت کا حق چھین لیا۔۔۔۔ اور یہ میں بچوں بڑوں سب کی بابت کہہ رہی ہوں۔۔۔۔ بلاضرورت بات کو پچھاڑنے کی کوشش کرنے والے، کم عمر افراد کے تجربے اور عقل و فہم پر سوال اٹھاتے ہوئے مجھے غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر سچی بات تو یہی ہے نا دوست کہ ایسا ہوتا ہے۔۔۔۔ اگر بیٹا یا بیٹی بڑوں کے فیصلے سے انکار کر دے تو وہ نالائق، ناخلف اور ناہنجار ہوگیا۔۔۔ لیکن اگر وہ اپنے دل پر پتھر رکھ لے اور مان جائے تو وہ فرمابردار ہے۔۔۔۔
یہ کون سے میعار ہیں ہمارے؟
یہ کیا طریقے ہیں ہمارے؟
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے شعور کا تقاضا کیا ہے؟
زندگی کی ڈور اُن کے ہاتھ میں ہو تو آپ لائقِ ستائش ہیں، دل کا سکون آنکھوں کی ٹھنڈک اور روح کا چین ہیں۔۔۔ آپ سے ہنس کر بات بھی کی جائے گی اور آپ سے محبت بھی کی جائے گی۔۔۔
ارے نہیں۔۔۔ اس محبت پر شک نہ کرنا، مشروط ہے۔۔۔ مگر ہوتی محبت ہی ہے۔۔۔ آپ ان سے اچھا کسی کو نہ پاؤ گی اپنی زندگی میں۔۔۔۔
لیکن جس دن آپ نے یہ ڈور کھینچ کر اپنے ہاتھ میں کر لی۔۔۔۔ آپ جیسا برا کوئی نہیں رہے گا ان کی نظر میں۔۔۔
خاموشی کی مار مارے جائیں گے آپ یا بلاوجہ کے عتاب اور غصے کا نشانہ بنیں گے۔۔۔ پھر آپ کچھ کر لیں آپ اُن کی نظر میں قابلِ عزت و محبت نہ ہو پائیں گے۔۔۔۔
اور میں جانتی ہوں کہ جب میں "اُن" کہتی ہوں تو آپ اچھے سے سمجھ رہی ہیں میرا اشارہ کس طرف ہے۔۔۔ ایسے لوگ ہم سب کی زندگیوں میں موجود ہیں۔۔۔ ہر رشتے ہر روپ میں۔۔۔۔
یہاں مجھے سمجھ نہیں آتی کہ پھر کیا جائے؟
کبھی دل کہتا ہے زندگی بس ایک ہی بار تو ملی ہے۔۔۔ اسے جی لو۔۔۔ کیا خدا کی دنیا تنگ ہے؟ کیا خدا کے خزانے کم ہیں؟ جو تم مشروط محبتوں کے پیچھے اپنے آپ کو ضائع کر دوگی؟
مگر دوسری طرف ماحول کی تلخی اور نظر انداز کیے جانا۔۔۔۔ وہ جن کو اپنا کہا ہو۔۔۔ جو اپنے ہوں۔۔۔ جن کا خون اپنی رگوں میں دوڑتا ہو۔۔۔ جن کی انگلیوں سے رشتوں کی ڈوریں بندھی ہوں۔۔۔۔ اُن کو کیسے خفا کر دیں؟ اُن سے کیسے دامن چھڑا لیں؟ اُن سے کیسے منہ موڑ لیں؟
شاعر نے کیا خوب کہا تھا
کیا ضروری ہے باخبر ٹھہریں
آگہی بھی عذاب ہوتی ہے
یہ آگہی کہ میرا کوئی آفاقی مقصد ہے۔۔ جو کہ مجھے پورا کرنا ہے۔۔۔
یہ آگہی کہ مجھ سے سوال ہوگا۔۔۔
یہ آگہی کہ میرے ذمے کا کام مجھی کو کرنا ہے اور نتائج کی ذمہ داری میری ہے۔۔۔۔
یہ آگہی کہ یہ گورکھ دھندے سب ذات پر اثرانداز ہوتے ہیں۔۔۔ صلاحیت کی تکمیل کے راستے میں حائل ہوتے ہیں۔۔۔۔
پھر بس یہی حل سمجھ آتا ہے کہ شائستگی اور روداری قائم رکھی جائے مگر اپنا فیصلہ اپنے ہاتھ میں ہی ہو۔ عزت و احترام ملحوظِ خاطر رکھا جائے مگر کسی کو اپنی زندگی کا کنٹرول سسٹم نہ تھمایا جائے۔
آگاہی ایک بہت بڑا ہتھیار ہے۔۔۔ مگر اس ہتھیار سے مار دینا نیت نہیں۔۔۔۔ اس ہتھیار سے سوچ کا ارتقاء مقصود ہے۔۔۔ جتنی ہو سکے آگاہی پھیلائیں۔۔۔ شعور کے تقاضوں پر بات کریں۔۔۔ ایک بالغ مرد و عورت کو شخصی طور پر کتنا مضبوط اور طاقتور ہونا چاہئیے۔۔۔ کتنا باصلاحیت اور فہم و فراصت سے بھرپور ہونا چاہئیے اس پر بات کریں۔ نئے دور کے نئے تقاضے ہیں۔۔۔ گزشتہ ادوار کے تجربات کا نچوڑ قابلِ احترام ہے۔۔۔۔ مگر ہر نقطہ ہر جگہ نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ شعور کے چراغ کو کبھی بجھنے نہیں دینا چاہئیے۔ ہر رشتے میں سوال کی گنجائش، اختلاف کا حق اور آزادی کا احترام۔۔۔ سب شعور کی روشنی میں ہی ممکن ہے۔۔۔۔
اس کے علاوہ حدود کو سیکھنا اور سکھانا۔۔۔ بلاشبہ محبت میں کوئی قید نہیں ہوتی۔۔۔ مگر محبت ایکسپلائٹ بھی نہیں ہونے دیتی۔۔۔ حدود نہ صرف ہمیں اکسپلائٹ ہونے سے بچاتی ہیں بلکہ خدانخواستہ اگر ہم کبھی ایسی غلطی کرنے لگیں تو دوسروں کو بھی محفوظ رکھتی ہیں۔
ہاں مخالفت ہو گی۔۔۔ ہاں محبتیں ختم ہو جائیں گی۔۔۔ مگر سمجھیں اس بات کو۔۔۔۔ آپ پیچھے کی طرف نہیں آگے کی طرف دیکھ رہی ہیں۔۔۔۔ آپ نے آنے والی نسلوں کے لئیے اِن زہر خند تیروں کو توڑنا ہے۔۔۔۔ ہم زخمی ہوئے تو بس ہو گئے نا۔۔۔ اب ان زخموں پر مرحم لگائیں اور آگے کا سوچیں۔ اس لئیے تبدیلی کے خوف کو بھی پچھاڑنا ہوگا۔
اور اس میں سب سے اہم بات۔۔۔۔ ہمیں خود اپنے آپ کو اپنی ہی مشروط محبت کی قید سے آزاد کرنا ہوگا۔۔۔ اپنے آپ کو بےلوث وفا کے قابل جاننا ہوگا۔۔۔۔ اپنی قدر، اپنی وقعت کو سمجھنا ہوگا کہ وہ ایسی محبتوں کی محتاج نہیں۔۔۔ نہ کسی اور سے۔۔۔ اور نہ خود اپنے آپ سے۔۔۔۔ اگر آپ گر جائیں تو بھی خود کو دلاسہ دیں اور محبت سے پیش آئیں۔۔۔ اور کامیاب ہو جائیں تو خود پر فخر بھی محسوس کریں۔۔۔۔ جب تک ہم خود اپنی ذات کے لئیے اپنا نظریہ نہیں بدلیں گے ہم آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔۔۔
تو دوست یہ تھیں وہ باتیں جن سے دل بھرا ہوا تھا۔۔۔ امید کرتی ہوں کہ اس گفتگو سے آپکے ذہن میں کوئی نہ کوئی گرہ تو سلجھی ہوگی۔۔۔
تو بس جاتے جاتے ایک سوال۔۔۔ جس کا جواب مجھے نہیں، خود اپنے آپ کو دینا۔۔۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ نے بھی دوسروں کو مشروط محبتوں کی زنجیروں میں باندھ رکھا ہو؟ اگر ایسا تو سوچیے گا ضرور اس سب پر جو میں نے کہا۔۔۔
خط پسند آیا ہو تو اپنی سہیلیوں کے ساتھ شئیر کرنا مت بھولئیے گا۔
اور اگر آپ بھی مجھ سے بات کرنا چاہتی ہیں تو جوابی خط یا کمنٹ لکھ بھجیے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ آپ کی زندگی میں سچی اور بےلوث محبتوں کی مہک صبح صادق کے وقت موتیے کی خوشبو کی طرح پھیل جائیے۔۔۔ آمین
اگرچہ آپ کا خط ایک وسیع تر تناظر میں بات کرتا ہے، لیکن اسے پڑھ کر مجھے ڈاکٹر جاوید اقبال کی ایک ویڈیو یاد آ گئی، جس میں وہ کہتے ہیں:
“ماں باپ سوچتے ہیں کہ بچہ میری بات مانتا ہے یا نہیں، اور وہ اسے کمیونیکیشن کہتے ہیں۔ یہ کمیونیکیشن نہیں ہے۔ اصل کمیونیکیشن یہ ہے کہ کیا ہم ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں یا نہیں۔”
محبت کے معاملے میں بھی لوگ اسی طرح سوچتے ہیں۔
جب تک آپ کا محبوب یا عزیز ویسا کر رہا ہے جیسا آپ چاہتے ہیں، سب کچھ ٹھیک ہے ،چاہے وہ رشتہ شادی کا ہو، خاندان کا ہو یا کوئی اور۔
لیکن سچی محبت کا معیار محض اطاعت یا خواہش کی تکمیل نہیں، بلکہ ایک دوسرے کو سمجھنا اور قبول کرنا ہونا چاہیے۔
آپ کی تحریر اک ریمانڈر تھی میرے لئے ۔۔۔۔میں نے اک بار پھر سے خود کو بتایا کہ مجھے یہ سب نہیں کرنا جو کچھ میں نے بھگتا ہے۔۔۔۔یہی اک راستہ ہے جس کے ذریعے اک مثبت تبدیلی ہم اپنے معاشرے میں لا سکتے ہیں۔۔۔بہت خوبصورت تحریر تھی ۔۔۔خوش رہیں ۔۔۔مسکراتی رہیں۔۔